کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 59
عبادات واَخلاق،آپ کی جنگیں ،آپ کی مسا عیٔ امن،آپ کی انفرادی اور اجتما عی زندگی مسلمانوں کے لیے مکمل نمو نہ ہے۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلما نوں کے لییدیگر معاملات میں ایک مکمل رہنما ئی دی اور عملی تصویر پیش کی،وہیں آپ نے انسانیت کے لیے معا شی نظام کا ایک بہترین پہلو متعارف کروایاجس میں اِنفرادی اور اِجتما عی معاش کے حصول کے خطوط واضح کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس زمانے میں ہوئی کہ جب جا ہلیت کی طبقاتی تقسیم نے معاشی جدوجہد کو بے حد متاثرکیا ہوا تھا۔لوٹ کھسوٹ اور بدنظمی،معاشی زندگی کی خصوصیت بن گئی تھی۔سرمایہ دار طبقہ نے عوام پرسود جیسی لعنت مسلط کر رکھی تھی جس سے غریب کا خون نچڑ رہا تھا۔ معاشرتی برائیاں شراب اورجوئے نے معا شی جد وجہد کو مفلوج کر دیا تھا۔ ذرائع آمدنی پر مخصوص لوگوں کا قبضہ تھا۔ طریقِ صرف میں کسی اَخلا قی اُصول کا لحا ظ نہ رکھا جا تا تھا۔ افرادِ معاشرہ کی ساری جدوجہد خود غرضی اور سنگ دلی پر مبنی تھی۔مفاد پرستی کے اِس دور میں رحمتہ للعالمین کا حصولِ معاش کے لیے کردار بہت مختلف اور منفرد تھا۔ معا شی زندگی جدید اصطلاح کے مطابق ’’اُس جدوجہد کا نام ہے جو اِنسا نی احتیاجات کی تسکین کے لیے دولت کما نے اور اُسے خرچ کرنے سے متعلق ہے۔‘‘ اِس کا ئنات میں آنے والے ہر انسان کو اپنی سانسیں بحال رکھنے کے لیے کم ازکم کسی بھی ظاہری معاشی اَسباب کا سہارا لینا پڑا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کے لیے رہبرِ کامل بنا کر بھیجا تھا، آپ نے بھی خود اپنے ہا تھوں سے رزقِ حلال کما کر انسانیت کویہ سبق دیا کہ کوئی انسان چا ہے کتنا ہی عظیم المرتبت کیوں نہ ہو، اُسے اپنے معاش کے لییخود کفیل ہوناچاہیے، نہ کہ دوسرے لوگوں پر بو جھ بننا چا ہیے۔ حا لا نکہ نبی اور آپ کے دیگر رفقا کے لیے یہ وقت بہت کٹھن تھا،کیو نکہ ایک طرف مشرکینِ مکہ نے معاشرتی مقاطعہ کر رکھا تھا، دوسری طرف نوبت جسمانی اذیتوں تک پہنچ چکی تھی۔ان حالات میں کسی قسم کی تجارت، کاروباریا معاشی جدوجہد کا جا ری رکھنا ممکن نظر نہیں آتا۔ پھرایک ہمہ وقتی کارکن کے لییجب کہ وہ ایک گروہ کو ساتھ لے کرچل رہا ہو ،معاشی جدوجہد کو برقرار رکھنا اور بھی مشکل ہو جا تا ہے۔ ابتدائی دور کی مصروفیات میں لو گوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاشی تعاون کا ذکر بھی ملتا ہے، لیکن آپ نے نہ