کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 5
ملک کا ایک ڈرائیور اینجلووڈی لاکروز عراق جنگ کے شروع میں اغوا ہوا تھا اور اغوا کاروں نے مطالبہ کیا تھا کہ عراق سے اپنی فوجیں واپس بلاؤ تو فلپائن جو سو سال سے امریکہ کا دست ِنگر تھا، اُس نے امریکہ کی اس دوستی پر لعنت بھیجتے ہوئے اپنی فوجیں عراق سے واپس بلا لی تھیں اور اس حکومت کے ترجمان نے کہا تھا: ’’یہ ایک ڈرائیور نہیں ، فلپائن کے ہر جیتے جاگتے انسان کا استعارہ ہے۔‘‘
ہم ان بے حس حکمرانوں کے دور میں بھی زندہ رہے جن سے برطانوی حکومت ایک پاکستان برطانوی شہری مرز ا طاہر حسین کو پرویز مشرف سے چھین کر لے جاتی ہے جسے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے قتل میں موت کی سزا ہوچکی ہوتی ہے اورکہتی ہے کہ ہم اپنے شہری کو پھانسی نہیں ہونے دیں گے خواہ وہ مسلمان اور پاکستانی کیوں نہ ہو۔
اس قوم کی حالت ِزار کی طرف دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے، جہاں مختاراں مائی کے لئے سڑکیں ، شہر اور میڈیا سب احتجاج کرتے ہیں اور عافیہ صدیقی پر ساری انسانی حقوق کی ترجمانی کرتی انجمنوں کو چپ لگ جاتی ہے، سانپ سونگھ جاتا ہے۔ آئیے اس فردِ جرم کے بارے میں ذرا جان لیں جو ہم پر لگ چکی۔ اللہ فرماتے ہیں اور حدیث ِقدسی میں درج ہے کہ
’’جس نے ایک آزاد مسلمان کو کسی غیر کے ہاتھ بیچا، میں قیامت کے دن خود اس کے خلاف مدعی ہوں گا۔ ‘‘ (صحیح بخاری:۲۲۷۰)
پھر بھی ہم یہ سوال کرتے ہیں ، ہم پر عذاب کیوں نازل ہوتے ہیں ، ہماری حالت کیوں نہیں بدلتی، ہم دربدر اور رسوا کیوں ہیں ؟ جن قوموں میں ایسے مجرم حکمران دندناتے پھریں ، اس طرح کے ظلم پر بے حسی اور خاموشی طاری رہے، ظلم کرنے والوں کے وکیل گلی گلی، محلے محلے موجود ہوں اور چاہنے والوں کے گروہ در گروہ بھی، ان کے نقش قدم پرچلنے والوں کو اپنے ووٹوں سے جس ملک کی اکثریت اپنی محبتوں سے اقتدار پر سرفراز کرے، وہاں سے رحمتیں روٹھ جاتیں ہیں اور غیض و غضب کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں ۔ (اوریا مقبول جان)