کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 49
ابتدائی علم رکھتے ہوں اور صرف و نحو کی مبادیات سے واقف ہوں اور اس سلسلہ کی مزید معلومات کے خواہشمند ہوں ۔ یہ کتاب نہ صرف ان کو قرآنی عبارت کے مختلف الفاظ اور جملوں کی تعلیل صرفی اور ترکیب ِنحوی میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ ربطِ الفاظ وآیات میں بھی معاونت کرے گی۔‘‘
ہماری دانست میں مؤلف اپنے اس دعوے میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں ۔یوں بھی عام لغات میں صرفی و نحوی بحث نہیں کی جاتی، صرف معانی پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے، جس سے عموماً طالب علم الفاظ کی صحیح تفہیم سے عاری رہتا ہے۔جبکہ قرآن فہمی کے لیے صرفی و نحوی مفہوم کاجاننا ضروری ہے۔ محض لفظی معنی کا علم قرآن فہمی کے لیے کافی نہیں ۔اس لحاظ سے مذکورہ کتاب محض کتابِ لغت نہیں اور نہ ہی محض ترجمہ و تفسیر بلکہ ان تینوں کا مختصر مجموعہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے مؤلف نے اس کا نام أنوار البیان في حل لغۃ القرآن رکھا ہے۔
مؤلف نے کتاب میں اُصول یہ رکھا ہے کہ وہ پہلے سورۃ کا نمبر، پھر آیت کا نمبر اس کے بعد جملہ یا الفاظ کا حوالہ دیتے ہیں ۔ مثلاً ۳- ۱۹۹ اس میں ۳ سورۃ کا ہے جبکہ ۱۱۹ آیت ہے۔ یہی جدید تحقیق کا اُصول بھی ہے جس کو مؤلف نے ملحوظ رکھا ہے۔
انوار البیان کے بارے میں بعض اہل علم کی تقاریظ بھی آغاز میں شامل کی گئی ہیں ۔ ان کے مطابق مفتی مبشر احمد اُستادِ حدیث کہتے ہیں کہ
’’اس تالیف کو بندہ نے حرفاً حرفاً پڑھا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ یہ تالیف موجودہ دور کے اُردو تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے نہایت ہی مفید ہے۔‘‘
سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر جو خود عربی زبان و اَدب کے مسلّم اُستاد ہیں ، ان کی رائے ہے کہ
’’یہ کتاب صرف منتہی حضرات کے استفادہ کے لیے ہے۔ اس سے عام قاری کی بجائے وہی استفادہ کر سکتا ہے جو عربی زبان و ادب سے بنیادی واقفیت رکھتا ہو۔ ایک شخص جس نے عربی گرامر کبھی نہیں پڑھی، اس کے لیے قواعد یاحذف یاالفاظ کے باہم مقلوب ہونے یا تقدیم و تاخیر کی بحثیں چنداں مفید نہیں ۔‘‘