کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 48
اورعَبَرَالْعَیْن بمعنی آنسوؤں کا جاری ہونا اوراَلْعَبَرَات(جمع)بمعنی آنسو ہے (مف) پھر اس کا استعمال ہر طرح کے راستے کو طے کرنے پر بھی ہونے لگا خواہ راستہ میں پانی ہو یا نہ ہو۔ ارشادِ باری ہے:﴿وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا﴾(النسائ:۴۳) ’’اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے قریب نہ جاؤ) یہاں تک کہ غسل کر لو مگر راہ چلتا مسافر (کہ اگر اسے پانی نہ ملے تو تیمم سے نماز پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘ 2. قَطَعَ کا بنیادی معنی کاٹنا اور الگ کرنا ہے اورقَطَعَ النَّہْربمعنی نہر کو عبور کرنا۔قَطَعَ السَّبِیْلب معنی راہزنی اور قَطَعَ الوادي بمعنی کسی میدان کو طے کر جانا اورقَطَعَ الامر بمعنی کسی کام کو سرانجام دینے کے لیے پروگرام طے کرنا ہے۔گویا یہ لفظ راستہ طے کرنا کے معنوں میں بھی عَبَرَسے اہم ہے۔ ارشادِ باری ہے۔ ﴿وَلَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا کُتِبَ لَہُمْ﴾ (التوبہ:۱۲۱) ’’اور نہ ہی کوئی میدان طے کرتے ہیں ۔ مگر یہ (اس کے نامۂ اعمال میں ) لکھ لیا جاتا ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر ہے۔ ﴿مَا کَنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰی تَشْہَدُوْنِ ﴾(النمل:۳۲) ’’جب تک تم حاضر نہ ہو میں کوئی معاملہ طے نہیں کرتی۔ ‘‘ ماحصل:عَبَرَکا لفظ صرف راستہ بالخصوص پانی طے یا عبور کرنے کے لیے اورقَطَعَ کا لفظ اعم ہے جو معاملات کے طے کرنے اور قطعاتِ ارضی کو پار کر جانے کے لیے آتا ہے۔ یہ کتاب لغت اور ادب کی باریکیوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ 6.اَنوار البیان فی حل لغات القرآن یہ کتاب علی محمد صاحب کی تالیف ہے۔ موصوف پاکستان سول سروس سے متعلق رہے اور بطور ایڈیشنل کمشنر ریٹائر ہوئے۔ سرکاری مصروفیات سے سبکدوش ہونے کے بعد اُنہوں نے یہ علمی کام سرانجام دیا۔مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عربی زبان وادب میں خاصی دسترس کے حامل ہیں ۔یہ کتاب ۱۹۹۵ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ مؤلف لکھتے ہیں کہ ’’یہ کتاب قرآنِ مجید کے ان طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے جو زبان عربی کا کم از کم