کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 45
ہیں ۔ اس لیے دونوں کے باہم تعلق اور ماحول کوسامنے رکھے بغیر قرآن فہمی ممکن ہی نہیں رہتی۔ اسی طرح عربی زبان پر کامل عبور بھی ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’عربی زبان پر عبور کے معنی یہ ہیں کہ اہل علم یہ جان سکیں کہ قرآن جس زبان میں نازل ہوا ہے، اس کا مزاج کیا ہے۔ اس کی ’صرف‘ کیا ہے، اس کی’ نحو‘ کا انداز کیا ہے اور وہ احکام، عقائد اور مسائل کو کس نہج سے پیش کرتا ہے،اس میں تشبیہ، استعارہ اور کنایہ کا کہاں کہاں استعمال ہوا ہے۔ یہ واضح رہے کہ جب تک ہم زبان دانی کی اُس سطح پر آشنائی پیدا نہیں کرتے جس پر قرآنِ کریم اپنے مخصوص اُسلوب اور پیرایۂ بیان کے لحاظ سے فائزہے اور اس زبان کے تیور اچھی طرح سمجھ نہیں پاتے، قرآنِ حکیم کے مطالب و دقائق تک ہماری رسائی ممکن نہیں ۔‘‘[1] وہ مزید لکھتے ہیں : ’’عربی زبان کی اہمیت،عظمت اور طرف طرازیوں کو جاننا ہمارے نزدیک اس لیے ضروری ہے کہ ہم عربی زبان کو صرف قالب یا فہم ادراک کا ایک ذریعہ اظہار ہی قرار نہیں دیتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں مطالب و معانی کا جو بحرِ بے کراں موجزن ہے اس کو عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں اَدا ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘[2] فاضل مؤلف لسان القرآن میں ان مذکورہ مدارج کا خوب خیال رکھتے نظر آتے ہیں اور کسی لفظ کے معانی متعین کرتے ہوئے ان مدارج سے باہر نہیں نکلتے۔چنانچہ لفظ جَسَد کی بحث میں لکھتے ہیں : ﴿ وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمَانَ وَاَلْقَیْنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ﴾ (ص ٓ:۳۴) ’’اور ہم نے سلیمان کو امتحان میں ڈالا اور ہم نے ان کے تخت پر ایک اَدھورا جسم لا ڈالا۔ پھر انہوں نے اﷲ کی طرف رجوع کیا۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں سلف سے متعدد روایات مذکور ہیں جو سرا سر اِسرائیلیات کے قبیل سے ہیں اور ایسی ہیں کہ جن سے نبوت کا تصور بری طرح مجروح ہوتا ہے۔چنانچہ ابنِ کثیر، ابنِ حزم، قاضی عیاض، علامہ عینی اور دوسرے ائمہ اَحادیث و تفسیررحمہم اللہ نے اُنہیں خرافات قرار
[1] لغات القرآن :1/25 [2] لغات القرآن :1/28، 29