کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 44
کے بعد متعین اور راجح معانی کو واضح کرتے ہیں ۔ اُنہوں نے جس تفسیری ادب کو سامنے رکھا ، جن کتب سے مدد لی ان میں ابوالفرا اسمٰعیل حافظ ابن کثیر کی تفسیر القرآن جسے عموماً تفسیر ابن کثیر کہا جاتا ہے اورتفسیر کبیر علامہ رازی اور زمخشری کی کشّاف زیادہ راجح ہیں ۔ ایک اور بات اُنہوں نے لکھی جو ان کے فکری حصار کا بھی پتہ دیتی ہے۔ نیز ان کی فکری آزادی کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ہم ڈرتے ڈرتے اس حقیقت کے اظہار میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ صوفیا کبار، اہل اﷲ اور ائمہ اہل بیت نے کہیں کہیں جو تفسیر و تعبیر کے جام و سبو چھلکائے ہیں ، ان کو بھی ہم نے چکھا اور برتا ہے۔‘‘[1] مولانا محمد حنیف ندوی اپنی کتاب لسان القرآن میں مآخذ کے چار مدارج قائم کرتے ہیں : 1. کتاب و سنت کی تصریحات 2. صحابہ کرام و تابعین سے منقول توضیحات 3. آیت کا سیاق و سباق 4. مستند تفاسیر و کتب احادیث 5. کتب ِلغت اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں : ’’لسان القرآن کی ترتیب میں ہم نے مآخذ سے اس نہج پر استفادہ کیا ہے کہ اوّلاً زیر بحث لفظ کے بارے میں قرآن و سنت کی تصریحات پر نظر ڈالی جائے۔ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ صحابہ و تابعین سے اس لفظ کی تفسیر و توضیح کے سلسلے میں کیا منقول ہے اور خدانخواستہ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ سے بھی جستجو کے باوجود کوئی واضح اور متعین مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو آیت کے سیاق و سباق سے رہنمائی حاصل کی جائے اور اس امر کی چھان بین کر لی جائے کہ یہ قرآنِ حکیم میں کہاں کہاں اور کن معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مزید برآں ہم نے زیر غور تشریح کے ضمن میں مستند تفاسیر،کتب ِاَحادیث اور اُمہاتِ لغت سے بھی خاصی مدد لی ہے۔‘‘ [2] عصر نبوت کے استحضار کا مطلب، ان کے نزدیک یہ ہے کہ نزول قرآن کے زمانے کے حالات و واقعات کو سامنے رکھنا، کیونکہ وہ زمانہ اور قرآن آپس میں چولی دامن کا ساتھ رکھتے
[1] لغات القرآن :1/33 [2] لغات القرآن :1/30، 31