کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 42
میں کامیاب نہ ہو سکا،لیکن اجعام کے عہد میں اس نے بڑی قوت حاصل کر لی اور بنی اسرائیل کے دس اسباط کو اپنے ساتھ ملا کر اجعام کو شکست دی۔ اس نے بیت المقدس کے ہیکل کے مقابلے میں وہ بت خانے تعمیر کرائے، جہاں سونے چاندی کے بتوں کی پرستش ہوتی تھی۔‘‘ (سلاطین ۱/باب ۱۴؛۱۲؛۱۱) حضرت سلیمان علیہ السلام کایہی بیٹا(جانشین)ہے جسے قرآنِ کریم نے جیتے جاگتے انسان کے بجائے’جَسَد‘ محض گوشت پوست کا مرکب کہہ کر اس کی نا اہلی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آیت(۳۴/۳۸) سے مترشح ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنی زندگی ہی میں اس کا احساس تھا اور اُنہوں نے خدا سے دعا کی تھی کہ مملکت تخریبی اثرات سے محفوظ رہے۔‘‘[1] یہاں صاحب ِلغت نے جَسَدًاکے معانی متعین کرنے کے لیے خود تورات کے متعین کردہ معانی کو صحیح قرار دیا حالانکہ تورات سے مدد لینا بذاتِ خود خارجی اثرات کا حصہ ہے۔ اس قسم کی مثالیں پوری لغت میں جا بجا موجود ہیں ۔ جس سے صاحب ِ لغات القرآن کا اپنی سوچ و فکر میں خارجی اثرات سے متاثر ہونے کا تاثر بڑھتا ہی چلا جاتاہے۔چونکہ یہ مثالیں ایک جگہ نہیں بلکہ پوری کتاب میں جا بجا موجود ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب محض کتابِ لغت نہیں بلکہ کچھ ذاتی فکر و سوچ کے فروغ کی کتاب بھی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ پرویزؔ کی ’لغات القرآن‘ اگرچہ اپنے موضوع کی اہم کتاب ہے جس میں اُنہوں نے خاصی عرق ریزی سے کام لیا ہے، تاہم یہ بات اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ موصوف بہت سے مقامات پر متواتر تفسیر سے پہلو تہی کرتے محسوس ہوتے ہیں ۔ایک طرف تووہ صحرا نشین عربوں کے ہاں کسی لفظ کے معنی کو بنیاد کی حیثیت دینے کا کہتے ہیں ، دوسری طرف وہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کسی لفظ کے معنی کو کس انداز میں لیا ہے، اس سے پہلو تہی کرتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ اس تواتر سے بھی پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں جو چودہ صدیوں سے متداول بھی ہے اور مسلّم بھی اور صحرا نشین بدوی کی تتبع میں دورتک نکل جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول جو معنی متعین ہیں ، ان کی بھی پیروی نہیں کرتے۔
[1] لغات القرآن :1/431، 432