کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 40
نہ کیا جائے، الفاظ کا صحیح مفہوم سمجھ میں نہیں آسکتا۔ یہ وہ بنیادی اُصول ہے جس پر دورِ حاضرہ میں Semantics نے بڑی عمدہ روشنی ڈالی ہے۔ علم اللسان کے اس شعبہ کا مطالعہ، الفاظ کی روح تک پہنچنے میں بڑا ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ (ج)اس کے بعدیہ دیکھنا چاہیے کہ قرآنِ کریم میں وہ لفظ کس کس مقام پر آیا ہے اور اس نے اسے کس کس رنگ میں استعمال کیا ہے۔ان مقامات سے اس لفظ کا قرآنی تصور (Quranic Concept) سامنے آ جائے گا۔ (د)سب سے بڑی چیز یہ کہ قرآنِ کریم کی پوری تعلیم کا مجموعی تصور سامنے ہونا چاہئے اور اس بنیادی اُصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس سے مفردات اور اصطلاحات کا مفہوم اس کی مجموعی تعلیم کے خلاف نہ جائے۔اس لیے کہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ذہن کو خارجی اثرات سے الگ رکھ کر قرآن کا مطالعہ خود قرآن کی روشنی میں کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کو نور (روشنی) کہا ہے اور روشنی اپنے آپ کو دکھانے کے لیے خارجی مدد کی محتاج نہیں ہوتی۔‘‘[1] اس جگہ یہ بات خاص طور پر محل نظر ہے کہ صاحب ِکتاب اس بات کا دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ذہن کو خارجی اثرات سے الگ رکھ کر قرآن کا مطالعہ خود قرآن کی روشنی میں کیا جائے لیکن اس دعوے کے باوجود وہ خود اس کی پابندی نہیں کرتے بلکہ خارجی اثرات کی بجائے اپنے ذاتی تاثرات کو قرآنی الفاظ کی تعیین میں شامل کرتے چلے جاتے ہیں ۔ جو بذاتِ خود خارجی اثر ہے۔مثلاً وہ لفظ ’زکوٰۃ‘ کی توضیح میں لکھتے ہیں : ’’قرآن کریم میں اقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ کے الفاظ بار بار آئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآنی نظام کے یہی دو ستون ہیں ۔ اقامت ِصلوٰۃ کے مفہوم کے لیے (ص ل و کے عنوان میں ) ’صلوٰۃ‘کا لفظ دیکھئے۔ اس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس سے مراد ہے ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا جس میں افرادِ معاشرہ، قوانینِ خداوندی کا اتباع کرتے، اپنی منزل مقصود تک پہنچیں ۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کا معاشرہ قائم کرنے سے مقصود کیا ہے؟ مقصود ہے ’ایتاے زکوٰۃ‘: ایتاء کے معنی ہیں دینا۔ اور (جیسا کہ آپ اوپر دیکھ چکے ہیں ) زکوٰۃ کے معنی ہیں : نشوونما۔ یعنی نوعِ انسانی کی نشوونما(Growth) تا Development کا سامان بہم
[1] لغات القرآن :1/17