کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 4
عافیہ صدیقی ہے اور اس پر مظالم کی وہ داستانیں سنائیں کہ روح کانپ اُٹھے۔ اسے بدترین جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے کا بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ ایوان رڈلی نے کہا میں تو ایک نو مسلم ہوں ، مجھے اسلام کی حقانیت کا علم ہے۔ میں تو تصور بھی نہیں کرسکتی کہ کوئی مسلمان اپنی بہن کو غیرمسلموں کے حوالے کردے کہ وہ اسے جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنائیں ۔ سولہ کروڑ لوگوں کے مقابلے میں اس ایک مسلمان برطانوی خاتون کی آواز زیادہ گرج دار، زیادہ جذباتی او رزیادہ ایمان افروز تھی۔ اب تک اس خاتون اور تین معصوم بچوں کو امریکیوں کے ہاتھ فروخت کئے ہوئے پانچ سال ہوچکے تھے اور اس قوم کی بے حسی اور خاموشی کو بھی اتنے ہی دن گذر چکے تھے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد گیارہ جولائی کو کرنل رولی نیلسن گرین نے پھر ایک جھوٹ بولا کہ بگرام جیل میں کوئی عورت نہیں ہے۔ ادھر ایوان رڈلی شواہد کے ساتھ میدان میں تھی۔ اب ۴/اگست ۲۰۰۸ء کو اعلان کیا گیا کہ عافیہ صدیقی کو ۱۷/جولائی کو غزنی میں افغان پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ امریکی سپاہیوں سے ان کی بندوق چھین کر ان پر حملہ کرنے کی کوشش میں زخمی ہوگئی تھی۔ حملہ آور زخمی ہوگئی اور امریکی سپاہیوں کو خراش تک نہ آئی۔ اسے امریکیوں کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کے جرم میں امریکہ منتقل کیا گیا اور پھر نیویارک کے جنوبی ڈسٹرکٹ کی عدالت میں مقدمہ چلا، سزا سنائی گئی تو اس کی وکیل اور ترجمان ٹینا فوسٹر نے اتنا کہا کہ عافیہ کو سزا صرف اور صرف پاکستانی حکومت کی بے حسی، لاپرواہی اور بے اعتنائی کی وجہ سے ہوئی۔ ہمارے اوپر بحیثیت ِقوم لگنے والی فردِ جرم مکمل ہوگئی۔ سب کے اعضاکل اس کے خلاف گواہی دیں گے: جس نے بیچا،جس نے جھوٹ بولا، جس کو اس ظلم کا علم تھا اور مجرمانہ خاموشی کا شکار رہا، سب اپنی اپنی فردِ جرم پر کیا جواب دیں گے۔ یہ معاملہ ان کا اور ان کے اللہ کا ہے!! لیکن میراسر شرم سے اس لئے جھکتا ہے کہ میں بھی اس مملکت ِخداداد پاکستان کا شہری ہوں جس کے حکمرانوں میں فلپائن جیسے امریکی امداد پر پلنے والے ملک جتنی بھی غیرت نہیں ۔جس