کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 38
اَسْمِــــعْکیا خوب سنتا ہے۔ قرآن مجید میں فعل تعجب ہو کر مستعمل ہوا۔
آیت شریفہ اَبْصِرْبہ واَسْمِعْ (کیا خوب دیکھتا اور سنتا ہے) میں ہے۔ ب۱۵/۱۶[1]
کہیں کہیں صاحب ِلغات القرآن الفاظ کے معانی بیان کرنے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ تشریح و توضیح میں بھی بہت دور تک چلے جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے الفاظ کے معانی تلاش کرنے والے کو بہت سی زائد معلومات غیر مطلوب انداز میں ملتی ہیں ۔اس سے معلومات میں اضافہ تو یقینا ہوتاہے تاہم قاری کی طبیعت پر کچھ زائد از ضرورت بوجھ بھی پڑتا ہے۔مثلاً موصوف نے لفظ اسمٰعیل کے ذیل میں طویل بحث کی ہے۔ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا پورا واقعہ تفصیل سے درج کیا ہے جو تقریباً سات صفحات تک ممتدہے۔اصل مقصود اس لفظ کی نشاندہی سب سے آخر میں اس طرح مندرج ہے:ب ۱۵۱/۱۶، ب۱۷۳،ب ۳۶،ب۱۶۷،ب۷۱۶، ب۶۱۷،ب۳۲۳[2]
ظاہر ہے ایسے مقامات پر لغات القرآن محض قرآنی لغت نہیں بلکہ قرآنی تفسیر محسوس ہوتی ہے۔جبکہ لغت القرآن کے طالب کا مقصود تو صرف الفاظ قرآنی کی لغوی بحث تک ہی محدود ہوتا ہے۔اس جگہ ہم یہ بات ضرور کہہ سکتے ہیں کہ صاحب ِلغات القرآن اپنے اس ادعا میں ضرور کامیاب رہے ہیں کہ
’’ان شاء اﷲ تعالیٰ عوام کے لیے الفاظ کا ترجمہ، متوسطین کے لیے ماخذ ِاشتقاق، صیغوں کا تعین اورمعانی کی ضروری تشریح و تفصیل اور خواص کے لیے اس کے علمی مباحث دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ ایک مدرّس اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر قرآنِ مجید کا درس دے سکتا ہے۔ ایک طالب ِعلم اس کے ذریعہ اُستاد کے دیئے ہوئے قرآنی سبق کو اچھی طرح یاد کر سکتا ہے اور ایک عام آدمی اس کے مطالعہ سے اپنی فہم کے مطابق قرآنِ مجید کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔‘‘[3]
لیکن اس صورت میں اس کتاب کو محض لغات القرآن کا نام دینا شاید درست نہ ہو، کیونکہ یہ نام کتاب کے اہداف کو محدود کر دیتا ہے۔جبکہ کتاب کے مندرجات اس حد بندی کی پابندی نہیں کرتے۔
[1] لغات القرآن :1/94
[2] لغات القرآن :1/95 تا 101
[3] لغات القرآن :1/7