کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 33
جناب غلام رسول سعیدی بریلوی راقم ہیں کہ ’’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ تاریخ میں اس کا ثبوت نہیں ہے کہ یہودیوں نے کسی نبی کی قبر کی پرستش کی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ کتب ِتاریخ میں کسی واقعہ کے مذکور نہ ہونے سے اس واقعہ کی نفی لازم نہیں آتی جب کہ ہمارے نزدیک کتب ِتاریخ کی بہ نسبت کتب ِاحادیث معتبر ہیں ۔‘‘ (نعمۃ الباري:۲/۲۰۴) دیکھیں پہلی اُمتوں کے لوگوں نے اپنے انبیا و صلحا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا، ان کو قبلہ قرار دیا، ان کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں اور ان کی پرستش کی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ایسے کاموں سے ڈرایا، روکا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسی خطرے کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو کھلا نہیں چھوڑا بلکہ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آپ کی عبادت کاذریعہ قطع کرنے کے لیے مندرجہ بالا اقدامات کئے۔ معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اس اُمت کے مسلمانوں کے شرک میں مبتلا ہونے سے بے خوف نہیں تھے، غور کریں ۔ کیا یہود و نصاریٰ قبروں میں مدفون بزرگوں کو واجب الوجود مان کر یا ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مان کر یا ان کومستحق عبادت سمجھ کر ان کی پرستش کیا کرتے تھے؟ اور کیا ان قوموں میں بھی صرف شرکِ اصغر (ریاکاری) ہی پایا جاتا تھا ان میں شرکِ اکبر کے مرتکب لوگ نہیں تھے؟ اور کیا ان قوموں کے مشرکانہ عقائد و افعال اور شرکِ اکبر میں مبتلا ہونے کے اسباب و دواعی ان ہی کے ساتھ خاص تھے؟ اور کیا اس امت کے لوگ ان کے نقش قدم پرایسا نہیں کرسکتے؟ جبکہ حدیث مبارکہ میں تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک بڑا ہی واضح ہے کہ ((لتتبعن سنن من قبلکم شبرا بشبر ودراعا بدراع حتی لو دخلوا جحر ضبّ لاتبعتموھم)) قلنا: یارسول اللّٰه! الیھود والنصارٰی؟قال: ((فمن؟)) (صحیح بخاری:۷۳۲۰ واللفظ لہ، مسلم:۲۶۶۹) ’’تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جیسا کہ بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ حتیٰ کہ اگر وہ سانڈھے کی بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہود و نصاریٰ؟ آپ نے فرمایااور کون؟‘‘