کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 32
فرمایا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحت یاب نہیں ہوئے: (( لعن اللّٰه الیھود والنصارٰی إتخذوا قبور أنبیائھم مساجد لولا ذلک أُبرز قبرہ غیر أنہ خشي أو خشی أن یتخذ مسجدًا)) (صحیح بخاری:۱۳۹۰، مسلم :۵۲۹) ’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ظاہر کردیا جاتا، لیکن آپ کو ڈر تھا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا۔‘‘ غلام رسول سعیدی بریلوی ’’نبیوں کی قبروں کی عبادت کی ابتدا کیسے ہوئی اور کسی ممنوع کام کا ذریعہ اور اس کا دروازہ بند کرنا‘‘ کی موٹی سرخی کے تحت علامہ ابوالعباس احمد بن عمر قرطبی (متوفی ۶۵۶ھ) سے ایک طویل عبارت نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے کہ ’’اسی وجہ سے مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور پر آپ کی عبادت کا ذریعہ قطع کرنے میں بہت مبالغہ کیا اور آپ کی قبر کی دیواروں کو بہت اونچا کردیا اور ان میں داخلہ کو مسدود کردیا۔ پھر ان کو یہ خوف ہوا کہ کہیں آپ کی قبر کو قبلہ نہ بنالیا جائے تو اُنہوں نے قبر کے دو رکنوں پر دو دیواریں بنا دیں حتیٰ کہ کسی شخص کے لیے نماز میں عین قبر کی طرف منہ کرنا ممکن نہ ہوا۔ اسی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر کو ظاہرکردیا جاتا۔‘‘ (المفھم: ۲/۱۲۸،نعمۃ الباري:۲/۱۹۰) ٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : لما نَزَل برسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم طفق یطرح خمیصۃ لہ علی وجھہٖ فاذا اغتم بھا کشفھا عن وجھہٖ فقال وھو کذلک لعنۃ اللّٰه علی الیہود والنصارٰی اتخذوا قبور أنبیائھم مساجد یحذر ما صنعوا (بخاری:۴۳۵، مسلم:۵۳۱) ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض الموت نازل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے پر سیاہ منقش چادر ڈالی۔ پھر جب آپ اس چادر سے تنگی محسوس کرتے تو آپ اس چادر کو چہرے سے ہٹا دیتے۔ پھر اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہود و نصاریٰ پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مساجد بنا دیا آپ ان کے کیے ہوئے کاموں سے ڈرا رہے تھے۔‘‘ (ترجمہ از غلام رسول سعیدی بریلوی، نعمۃ الباري:۲/۲۰۳)