کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 31
((أتاني جبرائیل علیہ السلام فبشرني أنہ من مات من أمتک لا یشرک باللّٰه شیئًا دخل الجنۃ)) (صحیح بخاری:۱۲۳۷، صحیح مسلم:۹۴ واللفظ لہ) ’’میرے پاس جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اورمجھے بشارت دی کہ جوشخص آپ کی اُمت میں سے اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ بالکل شرک نہ کیا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔‘‘ مجددِ بریلویت جناب احمد رضا خان صاحب فرماتے ہیں : ’’اللہ عزوجل، ابلیس کے مکر سے پناہ دے، دنیامیں بت پرستی کی ابتدا یوں ہوئی کہ صالحین کی محبت میں ان کی تصویریں بناکر گھروں اور مسجدوں میں تبرکا ً رکھیں اور ان سے لذت، عبادت کی تائید سمجھی، شدہ شدہ وہی معبود ہوگئیں ۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۴/۵۷۳) ٭ حضرت جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ روز پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور اس کے آخر میں ہے : ((ألا وإن من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور أنبیائھم وصالحھم مساجد ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إني أنھاکم عن ذلک)) (صحیح مسلم:۵۳۲) ’’سنو! تم میں سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اورنیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ سنو! میں تم کو اس سے روکتا ہوں ۔‘‘ (ترجمہ از غلام رسول سعیدی بریلوی، شرح صحیح مسلم:۲/۷۶ ) امام ابن الجوزی رحمہ اللہ راقم ہیں : ’’إن أصل عبادۃ الأوثان والأصنام من تعظیم قبور الأولیاء والصالحین ولھٰذا نھی الشارع صلی اللّٰه علیہ وسلم عن تعظیم القبور والصلاۃ عندھا والعکوف علیھا فإن ذلک ھوالذي أوقع الأمم الماضیۃ بالشرک الأکبر (تذکرۃ أولي البصائر في معرفۃ الکبائر،ص ۲۱) ’’بلاشبہ بتوں کی عبادت کی اصل وجہ ولیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم ہے اس لیے شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی تعظیم کرنے، اُن کے پاس نماز پڑھنے اور ان پر مجاور بن کربیٹھنے سے منع فرمایا ہے، بلا شبہ یہی وہ چیز ہے جس نے سابقہ امتوں کوشرک اکبر میں مبتلا کردیا تھا۔‘‘ ٭ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں