کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 3
دل سے آہ نکلی کہ ان تین معصوم بچوں کا کیا قصور ہے جن کے پیاروں کو ان کاکچھ اتہ پتہ معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں ؟ اس خاتون کے اُٹھائے جانے کے تین ماہ بعد۲۳جون۲۰۰۳ء کو ’نیوز وِیک‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ ڈاکٹر عافیہ کا القاعدہ کیساتھ تعلق ہے اور وہ ایف بی آئی کے پاس ہے۔ اگلے سال یعنی ۲۰۰۴ء میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے، اس کے بعد ایک طویل خاموشی رہی۔ کچھ اَتہ پتہ اس وقت چلا جب پاکستانی معظم بیگ جو برطانوی شہری بھی تھا اورجسے مشرف نے اسلام آباد سے گرفتار کرکے امریکہ کے ہاتھ بیچا تھا، وہ جب برطانوی حکومت کی کوشش سے گوانتا موبے سے رہا ہوا ، تو اس نے بتایا کہ جب بگرام جیل میں اس پر تشدد کیا جاتاتھا تو اسے قید خانے میں ایک عورت کے چیخنے چلانے اور مدد کیلئے پکارنے کی صدائیں آتی تھیں اور یوں لگتا تھا کہ اُس پربہت شدید تشدد کیا جارہا ہو۔ بعد میں دیگر رہا ہونے والے قیدیوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ اس خاتون کو قیدی نمبر ۶۵۰کے نام سے پکارا جاتا ہے او رکبھی کبھی اسے Grey Ladyبھی کہا جاتا ہے۔ انٹیلی جنس کی زبان میں بلیک اس کو کہتے ہیں جس پر جرم ثابت ہو، وائٹ اس کو کہتے ہیں جس پر کوئی جرم ثابت نہ ہو، لیکن گرے مشکوک کو کہتے ہیں ۔ پاکستانی قوم کی یہ کلمہ گو بیٹی اپنی تین معصوم بچوں کے ساتھ لاپتہ تھی اور ہم سب اپنی خواب گاہوں میں اپنے پیارے معصوم بچوں کو سینوں سے لپٹائے مزے کی نیند سورہے تھے۔ لیکن افغانستان میں طالبان کی قید میں ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام کرنے والی برطانوی صحافی خاتون ایوان رڈلی نے اس خاتون کا پتہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ کون ہے؟ اس پر یہ ظلم کیوں ڈھایا جارہا ہے؟ وہ ان چار عرب باشندوں سے ملی جو بگرام جیل سے بھاگے تھے۔ اُنہوں نے خاتون کا حلیہ بھی بتایا او ریہ بھی کہا کہ اس پر اتنا تشدد ہوتا تھا کہ چیخوں کی وجہ سے کئی کئی راتوں سو نہیں سکتے تھے۔ تمام شواہد اکٹھے کرنے کے بعد یہ نومسلم برطانوی صحافی سراپا احتجاج بن گئی اور فوراً پاکستان آگئی کہ اس خوابیدہ قوم کی غیرت پر سوال کرے۔ اس نے عمران خان کے ساتھ ۷جولائی ۲۰۰۸ء کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ قیدی نمبر ۶۵۰ ڈاکٹر