کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 29
الوجود یا ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات یا ان کو مستحق عبادت قرار نہیں دیتا، لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے۔
(ب) پیر صاحب اورمولانا صاحب نے اس آیت ِکریمہ اور حدیث ِمبارکہ کو یہود و نصاریٰ کفار تک محدود کرنے یا قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دے کر ردّ کردینے کا موقف نہیں اپنایا تھا جو آج کے ان جدید مفکرین کی زبان پر گردان کی طرح جاری وساری ہے۔
(ج) کیامسلمان اس معاملہ میں یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پرنہیں چل سکتے؟جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ
تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے۔ بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ حتیٰ کہ اگر وہ سانڈھے کی بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، یہود و نصاریٰ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کون؟
(صحیح بخاری: ۷۳۲۰، صحیح مسلم:۲۶۶۹)
(د) اور غلام رسول سعیدی صاحب نے تو اس زمانہ میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھ لیا ہے جو اپنے بزرگوں کو ربّ بنائے بیٹھے ہیں لیکن شاید آج کے ان جدید مفکرین کے نزدیک اللہ کے سوا کسی کو ربّ بنانا بھی شرکِ اکبر نہ ہو؟ یا ممکن ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک یہود و نصاریٰ میں بھی شرک ِاکبر نابود ہو؟
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ إنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ أنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَلِکَ لِمَنْ یَّشَائُ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرَیٰ إثْمًا عَظِیْمًا﴾ (النساء :۴۸)
’’بلا شبہ اللہ شرک کو کبھی معاف نہ کرے گا اور اس کے علاوہ وہ جسے چاہے معاف کردیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک بنایا اس نے بہتان باندھا اور بہت بڑا گناہ کیا۔‘‘
(ا) ایسے گناہ جن سے مؤمن توبہ کیے بغیر ہی مرجائیں ، لیکن شرک پرموت نہ آئی ہو، تو اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے گا، سزا دیئے بغیر اس کو معاف فرما دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دینے کے بعد اور بعض کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر معاف فرما دے گا۔