کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 28
سے۔‘‘ (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)
جسٹس (ر) پیر کرم شاہ ازہری سجادہ نشین بھیرہ شریف اسی آیت ِکریمہ کے تحت راقم ہیں :
’’حضرت عدی بن حاتم پہلے عیسائی تھے۔ اب اُنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو انہیں ربّ نہیں مانتے توقرآن کی اس آیت کا کیامطلب ہے؟ حضورِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کردیتے تو کیا تم ان کی ان باتوں کونہیں مانتے تھے۔ عدی نے عرض کی کہ ایسا تو ہم کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی ان کو ربّ ٹھہرانا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اگر کوئی حرام کردے یا ان کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے تو اس نے گویا تشریع قانون سازی جو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جن لوگوں نے اس کی ان باتوں کو مان لیا، گویا انہوں نے اس کی خدائی کو تسلیم کرلیا۔‘‘ (ضیاء القرآن:۲/۱۹۸)
اور غلام رسول سعیدی صاحب بھی اسی آیت کریمہ کے تحت حضرت عدی رضی اللہ عنہ والی مذکورہ بالا حدیث کو بحوالہ سنن ترمذی :۳۰۹۵ درج کرنے کے بعد رقم طراز ہیں :
’’قرآنِ مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اور اس پر اصرار کرنا اس دینی پیشوا کو خدا بنا لینا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح حدیث کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کو ترجیح دینا اس کو رسول کا درجہ دینا ہے۔‘‘
نیز فرماتے ہیں :
’’لیکن اس زمانہ میں ہم نے دیکھا کہ اگر کسی شخص کے دینی پیشوا کے کسی قول کے خلاف قرآن اور حدیث کتنا ہی کیوں نہ پیش کیا جائے وہ اپنے دینی پیشوا کے قول کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور کہتا ہے کیا یہ قرآن کی آیت اور یہ حدیث ان کومعلوم نہیں تھی اور وہ قرآن اور حدیث کو تم سے زیادہ جاننے والے تھے۔‘‘ (تبیان القرآن:۵/۱۲۲)
(ا)قرآن و سنت کے مقابلہ میں کسی کی بات ماننا اس کو ربّ قرار دینا ہے یہی بات پیرکرم شاہ ازہری اور مولانا غلام رسول سعیدی نے بھی بیان کی ہے، حالانکہ کوئی بھی انہیں واجب