کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 27
تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔‘‘ (الانعام:۱۲۱) تومعلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے یا کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط لگانا غلط ہے اور قرآنِ پاک کے خلاف ہے۔ ۸ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ آدَمَ أنْ لَّا تَعْبُدُوْا الشَّیْطٰنَ إنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ وَاَنِ اعْبُدُوْنِیْ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ﴾ (یس:۶۰،۶۱) ’’اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری بندگی کرنا، یہ سیدھی راہ ہے۔‘‘ (ترجمہ: از احمد رضا خان بریلوی، کنزالایمان) نعیم الدین مراد آبادی بریلوی رقم طراز ہیں : ’’اس کی فرمانبرداری نہ کرنا اور کسی کو عبادت میں میراشریک نہ کرنا۔‘‘ (خزائن العرفان، سورئہ یس: حاشیہ نمبر۷۷،۷۸) غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں : ’’اور شیطان کی عبادت سے مراد ہے، شیطان کے احکام پر عمل کرنا اور اس کے قدم بہ قدم چلنا۔‘‘ (تبیان القرآن:۹/۸۰۳) کیاکوئی بھی عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ شیطان کی عبادت بھی شرک نہیں ہے اور لوگوں میں اس کا وجود نہیں ہے؟ حالانکہ کوئی بھی شیطان کو واجب الوجود، اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات اور اس کو مستحق عبادت قرار دینے والا نہیں ۔ معلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے اس سے تو شیطان کی عبادت بھی شرک ثابت نہیں ہوگی۔ ۹ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿إتَّخَذُوْا أحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰھًا وَاحِدًا لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ (التوبہ:۳۱) ’’اُنہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا اورمسیح ابن مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں ، اُسے پاکی ہے ان کے شرک