کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 26
’’دیکھیں یہی باتیں مشرکین اصنام میں تھیں اور یہی آج کے اکثر عقیدت مند مسلمان کہلوانے والوں میں ہیں تو کیا ان پر وہ آیات خود فٹ نہیں آرہیں ؟‘‘ (اعانت و استعانت:ص ۹۵،۹۶)
۷ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿وَإنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ إلٰی اَوْلِیَائِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَإنْ أَطَعْتُمُوْھُمْ إنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ﴾ (الانعام:۱۲۱)
’’بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔‘‘ (ترجمہ از غلام رسول سعیدی صاحب، تبیان القرآن:۳/۶۳۶)
(ا) اس آیت ِکریمہ میں مسلمانوں ، کلمہ پڑھنے والوں ، آپ کے امتیوں سے خطاب ہے۔
(ب) یہ آیت ِکریمہ بھی اس بارے میں نص صریح ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے اور یہ کہ مسلمان بھی مشرک ہوسکتے ہیں ۔
(ج) اور اسے قرب ِقیامت کے ساتھ خاص بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کی ریاکاری کے ساتھ تاویل ہوسکتی ہے۔
(د) اگر اُمت ِمسلمہ میں شرک نہیں پایا جاسکتا یا مسلمان شرک نہیں کرسکتے تو پھر إنکم لمشرکون اور وہ بھی تاکیداً کیوں کہا گیا؟
(ہ)جسٹس ریٹائرڈ پیر کرم شاہ ازہری صاحب راقم ہیں :
’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال یقین کرتاہے وہ مشرک ہوجاتا ہے۔‘‘ (ضیاء القرآن:۱/۵۹۷)
(و) نعیم الدین مراد آبادی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’کیونکہ دین میں حکم الٰہی کو چھوڑ دینا اور دوسرے حکم کا ماننا اللہ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔‘‘ (خزائن العرفان، حاشیہ سورئہ انعام ، آیت :۱۲۱)
(ز) کوئی مسلمان، شیطان یا اس کے اولیا کو واجب الوجود مانتا ہے، نہ ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ ان کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ