کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 20
ذلک علی أصحاب رسول للّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم وقالوا أینا لایظلم نفسہ؟ فقال رسول اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم : ((لیس ھو کما تظنون إنّما ھو کما قال لقمان لابنہ ﴿یٰبَنِيَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰهِ إنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾)) (صحیح بخاری:۳۴۲۹، صحیح مسلم:۱۲۴ واللفظ لہ)
’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی [ترجمہ: جن مؤمنین نے اپنے ایمان کے ساتھ بالکل ظلم نہیں کیا (انہی کو نجات ہوگی)]تو صحابہ کرام اس آیت سے بہت پریشان ہوئے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ہم میں سے کون شخص (معصیت کرکے) ظلم نہیں کرتا! رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اس آیت میں ظلم یعنی شرک ہے جس طرح لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے بیٹے! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا یقینا شرک کرنا ظلم عظیم ہے۔‘‘ (ترجمہ از غلام رسول سعیدی ،شرح صحیح مسلم:۱/۵۸۶)
(ا) اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور اُنہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی آمیزش نہیں کی۔‘‘ اس بارے میں نص صریح ہے کہ اہل ایمان،ایمان لانے کے بعد بھی شرک میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور یہاں اس سے شرکِ اکبر مراد ہے جیسا کہ تفصیل آرہی ہے۔
(ب) یہ آیت ِکریمہ اہل ایمان، مسلمانوں یعنی کلمہ پڑھنے والے اُمتیوں کے بارے میں ہے کہ شرک نہ کرنے کی صورت میں ان کے لیے امن کی گارنٹی اور ہدایت یافتہ ہونے کی سعادت ہے۔
(ج) کلمہ نہ پڑھ کر اُمتی نہ بننے والوں کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ وہ تو اگر بالفرض شرک نہ بھی کریں تو پھر بھی ان کے لیے نہ امن ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ کلمہ نہ پڑھنے اور انکارِ نبوت کی وجہ سے ہی وہ کافر اور ابدی جہنمی ہیں ۔
(د) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس آیت ِکریمہ کو، ہمارے اس دور کے اصحابِ جبہ ودستار کی طرح یہ کہہ کر ردّ نہیں کردیا کہ یہ تو کفار، یہود و نصاریٰ یا بتوں ، سورج، چاند اور ستاروں کے متعلق ہے اور پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا نہیں کیا۔
(ہ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس آیت ِکریمہ کواپنے بارے میں سمجھا، اس سے استدلال کیا اور اپنے بارے میں پریشانی کا اظہار بھی کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو ردّ نہیں کیابلکہ باقی رکھا