کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 19
اگر کوئی مسلمان ایسا کرسکتا ہے تو اس اُمت میں شرک بھی پایا جاسکتا ہے اور یہ مزعومہ دعویٰ کہ ’’اس امت میں سے شرک ہمیشہ کے لیے نابود ہوچکا ہے اور اب کوئی مسلمان شرک کا مرتکب نہیں ہوسکتا‘‘ سراسر باطل قرار پاتا ہے۔ یا پھر ان جدید مفکرین کی طرف سے اپنے اس بیان کردہ اُصول کو بھی ریا کاری یعنی شرکِ اصغر پر محمول کرلیا جائے گا؟ اس صورت میں تو ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات ماننا اس کو مستحق عبادت قرار دینا‘‘ بھی ان اصحابِ جبہ و دستار کے نزدیک شرکِ اکبر نہیں ہوگا۔ یا پھر اپنے اس اُصول کوبھی قربِ قیامت کے لوگوں کے ساتھ خاص قرار دے لیں گے؟
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
اور اگر کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو ایسا نہیں مان سکتا تو پھر یہ مزعومہ اصول کہ ’’شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو عبادت کا مستحق قرار دیا جائے اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔‘‘ (نعمۃ الباري:۲/۱۸۵) قرآنِ پاک کے مخالف ہونے کے سبب بذاتِ خود باطل قرار پاتا ہے کیونکہ قرآنِ پاک سے یہ ثابت ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کے ساتھ شرک کی آمیزش کرسکتا ہے۔
۱ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿فَأيُّ الْفَرِیْقَیْنِ أحَقُّ بِالأمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الأَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْنَ﴾ (الانعام:۸۱،۸۲)
’’تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ سزاوار کون ہے اگر تم جانتے ہو، وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی، اُنہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں ۔‘‘ (ترجمہ از مولانا احمدرضا خان بریلوی ، کنزالایمان)
اس آیت ِمبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حدیث ِمبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی ہے:
عن عبد اللّٰهِ قال لمّا نزلت ﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ﴾ شق