کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 18
بلکہ ان کی عبادت اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوجائے یا ان کی سفارش سے اللہ ہماری ضرورتیں پوری کردیتا ہے۔ مشکل کشائی، حاجت روائی کرتا ہے، شفا بخشتا ہے، ہماری سنتا نہیں ، ان کی موڑتا نہیں وغیرہ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی عبادت کرتے، اور مافوق الاسباب اختیارات کامالک سمجھتے اور پکارتے تھے، ان کو نفع و نقصان کے حصول میں مستقل نہیں مانتے تھے، کیونکہ سفارشی مستقل نہیں ہوتالہٰذا وہ اُنہیں غیرمستقل مانتے تھے اور انہیں اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان واسطہ، وسیلہ اور ذریعہ قرار دیتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے شرک قرار دیا ہے۔ لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لئے
’’شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانا جائے یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو مستحق عبادت قرار دیا جائے اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔‘‘ (نعمۃ الباري: ۲/۱۸۵)
کی شرط لگانا سراسر باطل ہے۔ اس سے تو مشرکین عرب کاشرک بھی ثابت نہیں ہوتا اور یہ قرآنِ پاک کے خلاف ہے، لیکن اگرپھر بھی کوئی بضد ہو تو پھر اسے اب یہ دعویٰ بھی کردینا چاہئے کہ ’’مشرکین عرب میں بھی شرک نابود تھا اور اُن کا کوئی فرد بھی مشرک نہیں تھا۔‘‘ معاذ اللہ تاکہ غلط نظریات کے دفاع کا صحیح حق ادا ہوجائے اور اپنے اس خود ساختہ اُصول سے بھی کماحقہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ حالی لکھتے ہیں :
مگر مؤمنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نیز
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
اُمت ِمسلمہ میں بھی شرک پایا جاتا ہے!
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مسلمان ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مان سکتا ہے یا اس کو عبادت کا مستحق قرار دے سکتا ہے یا نہیں ؟‘‘