کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 17
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’ہلاکت ہو تمہارے لیے، اسی پر اکتفا کرو‘‘ لیکن وہ کہتے ’’إلا شریکًا ھو لک تملکہ وما مَلَک‘‘ یعنی ’’اے اللہ! تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسا شریک جو تیرے لیے ہے، تو اس شریک کا بھی مالک ہے اور اس چیز کا بھی مالک ہے جو اس شریک کے اختیار میں ہے۔‘‘ مشرکین مکہ تقربِ الٰہی اور سفارش کے لئے دوسروں کو شریک کرتے تھے! مشرکین عرب اپنے معبودوں کی پرستش اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوجائے یا اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ہماری سفارش کریں ، ان کو مستحق عبادت سمجھ کر ان کی پوجا نہیں کرتے تھے، کیونکہ سفارشی مستقل نہیں ہوتابلکہ غیر مستقل ہی ہوتا ہے۔ارشادِ باری ہے: ﴿إنَّا أنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَہُ الدِّیْنَ، اَلَا للّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أوْلِیَائَ مَا نَعْبُدُھُمْ إلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إلَی اللّٰهِ زُلْفٰی﴾(الزمر: ۲، ۳) ’’بے شک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اُتاری، تو اللہ کو پوجو، نرے اس کے بندے ہوکر، ہاں خالص اللہ ہی کی بندگی ہے، اور جنہوں نے اس کے سوا اور والی بنالئے، کہتے ہیں کہ ہم تو اُنہیں صرف اتنی بات کے لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کردیں ۔‘‘ (ترجمہ از احمد رضا خان بریلوی ،کنزالایمان) ایک مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَالَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤلَائِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ قُلْ أتُنَبِّئُوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِیْ السَّمٰوٰاتِ وَلَا فِیْ الأَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ (یونس:۱۸) ’’اور وہ اللہ کے سوا ایسی چیز کو پوجتے ہیں جو ان کا کچھ بھلا نہ کرے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ تو فرماؤ کیا اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین میں ، اسے پاکی اور برتری ہے ان کے شرک سے۔‘‘ (ترجمہ از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان) معلوم ہواکہ مشرکین عرب اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ان کی صفات واختیارات کو ان کی ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اور ا س کی ملکیت مانتے تھے لہٰذا اُن کو واجب الوجود، اُن کی صفات کو قدیم اور مستقل بالذات اور ان کو مستحق عبادت نہیں مانتے تھے۔