کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 14
الوجود مانتے تھے اور اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق، ملکیت اور اس کے ماتحت تصور کرتے تھے نہ کہ واجب الوجود۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’واعلم أن للتوحید أربع مراتب: إحداھا حصر وجوب الوجود فیہ تعالیٰ فلا یکون غیرہ واجبًا۔ والثانیۃ حصر خلق العرش والسموات والأرض وسائر الجواھر فیہ تعالیٰ وھاتان المرتبتان لم تبحث الکتب الالھیۃ عنھما ولم یخالف فیھما مشرکوا العرب ولا الیھود ولا النصارٰی بل القرآن ناص علی أنھما من المقدمات المسلمۃ عندھم‘‘ ’’تو جان لے یقینا توحید کے چار درجے ہیں :پہلا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی میں واجب الوجود ہونے کی صفت پائی جاتی ہے پس اس کے سوا واجب الوجود کوئی نہیں ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عرش، آسمانوں ، زمینوں اور تمام جواہر کا خالق ہے۔ (یاد رہے کہ) آسمانی کتابوں نے ان دو مراتب سے بحث نہیں کی اور نہ ہی مشرکینِ عرب اور یہود و نصاریٰ نے ان میں اختلاف کیاہے بلکہ قرآنِ پاک کی اس پر نص قطعی ہے کہ ان کے نزدیک یہ دونوں باتیں مسلمات میں سے ہیں ۔‘‘ (حجۃ اللّٰه البالغۃ:۱/۵۹) اللہ تعالیٰ ہی آسمان وزمین اور پوری کائنات کا خالق ہے! 1. اِرشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَلَئِنْ سَألْتَھُمْ مَنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلَنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ﴾(الزخرف:۸۷) ’’اور اگر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان سے پوچھیں کہ اُنہیں کس نے پیدا کیا؟ تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے، پھر کہاں سے یہ دھوکہ کھا رہے ہیں۔‘‘ ۲. اِرشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَئِنْ سَألْتَھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالأَرْضِ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ قُلِ الْحَمْدُ للّٰهِ بَلْ أکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (لقمان:۲۵) ’’اور اگر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان سے پوچھیں ، آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے اللہ تعالیٰ ، کہو: الحمدللہ، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ۔‘‘ ۳ .ایک اور مقام پر فرمایا: