کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 13
کارندے بھی مخصوص مفادات کی خاطر، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دامِ فریب میں پھانسنے کے لیے، تلبیسانہ انداز میں ملمع سازی کرکے ظلم عظیم کو صراطِ مستقیم، شرک و گستاخی کو رشد و ہدایت اور عشق و محبت کے روپ میں پیش کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ،لیکن یاد رہنا چاہئے کہ توحید و سنت کے چراغ شرک و گستاخی کی پھونکوں سے کیونکر بجھائے جاسکتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یُرِیْدُوْنَ أنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِأفْوَاھِھِمْ وَیَاْبَی اللّٰهُ اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ٭ ھُوَّ الَّذِیْ أرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ﴾ (التوبہ:۳۲،۳۳) ’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہہ (کی پھونکوں ) سے بجھا ڈالیں ، لیکن اللہ کو یہ بات منظور نہیں ہے، وہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار گزرے۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سب اَدیان پر غالب کردے۔خواہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘ اس مذموم کاروبار کو رواج دینے اور سند ِجواز بخشنے کے لیے بعض مفکرین کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا جانے لگا ہے کہ شرک تو ہمیشہ کے لیے نابود ہوچکا ہے۔ اب اس اُمت میں شرک نہیں پایا جاسکتا اور کوئی مسلمان مشرک نہیں ہوسکتا اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق، عوام کو مغالطہ دیتے ہوئے اب یہ بھی کہا جانے لگا کہ شرک کی مذمت والی آیات و اَحادیث میں مراد رِیاکاری یعنی شرکِ اصغر ہے نہ کہ شرکِ اکبر، اورکبھی ان کو قربِ قیامت کے لوگوں کے ساتھ خاص قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی بیان کیا جاتا ہے کہ ’’شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانا جائے یا اُس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو مستحقِ عبادت قرار دیا جائے۔ اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔‘‘ (نعمۃ الباري في شرح صحیح البخاري:۲/۱۸۵) تارِ عنکبوت سے کمزور اس اُصول کی حقیقت تو اس بات سے ہی کھل جاتی ہے کہ اس قاعدہ سے تو مشرکینِ عرب بھی مشرک ثابت نہیں ہوتے اور شاید اس طرح یہ لوگ اپنے سے زیادہ مشرکینِ عرب کا دفاع کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کو ہی خالق، مالک، رازق اور واجب