کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 12
ایمان وعقائد ابوعبداللہ طارق٭ اُمت ِمسلمہ میں شرک کا وجود؟ شرک اور اس کی ذیلی صورتوں سے بچنے کے لئے کتاب وسنت میں بے شمار ہدایات پائی جاتی ہیں ، اور علماے کرام عوام الناس کو اس کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن کچھ عرصہ سے بعض لوگوں نے شرک کی ایک خودساختہ تعریف متعین کرکے عوام الناس میں پائے جانے والی شرکیہ کوتاہیوں کو تحفظ دینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ مختلف شہروں میں ’عقیدئہ ؟؟توحید‘ کے نام سے سمینار منعقد کرکے ان میں نہ صرف عوام الناس کو مغالطہ دیا جارہا ہے بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں شرک کا وجود ہی سرے سے ناممکن ہے، اس لئے شرک سے بچنے کی تدابیر اضافی اور بے فائدہ ہیں ۔ زیر نظر مضمون میں شرک کی ناقص اور خودساختہ تعریف کی قرآنی آیات اور ائمہ اسلاف کے ذریعے تردید کرنے کے بعد اُمت ِمسلمہ میں شرک کے وجود کو آیاتِ کریمہ سے ثابت کیا گیا ہے تاکہ عوام الناس اس کے بارے میں فکر مند ہوں ، اپنے اعمال کے بارے میں توجہ کریں ، نہ کہ مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں ۔ ہر دو نکات پر بکثرت قرآنی دلائل اس لئے پیش کئے گئے ہیں تاکہ حق کے متلاشی کے لئے یہ مسائل ظاہر وباہر ہوجائیں اور کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کو خلوص کے ساتھ سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ ح م اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ایمان و توحید ہے اور بلاشبہ اسے تعلیماتِ اِسلامیہ میں اَساس اور مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہے جب کہ برے اَعمال میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز شرک ہے۔جس قدر اس کی مذمت کی گئی ہے، اس قدر کسی اور چیز کی شناعت بیان نہیں کی گئی۔اسی توحید کے اثبات اور تبلیغ و اشاعت اور شرک کے نقصان و بُرائی کو واضح کرنے اور لوگوں کو اس سے روکنے کے لیے انبیا و رسل علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے اور یہی ان کی دعوت و کاوش کا مرکزی نکتہ رہا ہے اور اسی میں اُنہوں نے اپنی زندگیاں صرف کردیں اور ان کے بعد علماے ربانی بھی اسی متاعِ عزیز کو سینے سے لگائے ہر دور میں حقِ وراثت ِانبیا ادا کرتے چلے آرہے ہیں ۔جب کہ مقابلہ میں ابلیسِ لعین بھی اپنے لاؤلشکر سمیت ہر دور میں نت نئے انداز و مغالطہ جات سے اور اب تو جدید ہتھیاروں سے لیس حملہ آور ہے اور اس کے ٭ مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ ( البیت العقیق) لاہور