کتاب: محدث شمارہ 341 - صفحہ 10
طور پر امریکی میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا ہے، وہ انجینئرڈ تھا۔ سزا دینے والے سمجھتے تھے کہ اس سزا کے خلاف عالم اسلام میں شدید ردّ عمل سامنے آئے گا، بالخصوص یہودیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اسی لیے عافیہ صدیقی سے منسوب یہ بیان نشر کیا گیا کہ وہ امریکہ یا اِسرائیل کے خلاف نہیں ہے۔ اپنے اسلامی ملک افغانستان میں تو اس پر تشدد ہوا ہے، لیکن جب سے وہ امریکہ میں ہے، اس کے ساتھ کوئی زیادتی یا تشدد نہیں ہوا بلکہ اسے پورے وقار کے ساتھ رکھا گیا۔ عافیہ صدیقی کے منہ میں یہ بھی الفاظ ڈالے گئے کہ اُس کی بیٹی بھی ایک امریکی یہودی کے پاس ہے، لیکن کسی نے اس کی عزت کو نقصان نہیں پہنچایا اور یہ کہ امریکی محافظوں نے بھی ان کے ساتھ جیل میں اچھا سلوک کیا ہے۔ مزید برآں یہ جملے بھی غور طلب ہیں : ’’میں جنگ کی مخالف اور امن کی حمایتی ہوں ۔ مجھے طالبان کے ہاتھوں امریکی فوجیوں کے قتل کا بھی افسوس ہے۔ میں مسلمانوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ تشدد کی راہ اختیار نہ کریں اور نہ میرے لیے لابنگ کریں ۔میں فلسطین کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عورتوں ، ماؤں اور بچوں کے لیے بھی امن و تحفظ کی حامی ہوں ۔‘‘ وغیرہ وغیرہ یہ بیان ڈاکٹر عافیہ صدیقی بقائمی ہوش و حواس اور آزادانہ مرضی کے تحت نہیں دے سکتیں ۔ وہ بارہا عدالت میں بیان دے چکی ہیں کہ ان کے ساتھ جیل میں بہیمانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ وہ اس ’اسلامی ملک‘ افغانستان میں بھی امریکیوں کی قید میں تھیں ۔ بلگرام جیل میں قیدی نمبر ۶۵۰ کے طور پر کاظم آغا اور ایوان رڈلے کی رپورٹنگ پر اُس کاسراغ ملا تھا۔ عافیہ صدیقی نے بیان دیا تھا کہ اُسے ’ریپ‘ (زنا بالجبر) بھی کیا گیا تھا۔ ممکن ہے اُس کے قانونی مشیروں نے امریکی جج کا جذبہ ترحم اُبھارنے کے لیے اُ س سے یہ لکھا لکھایا بیان پڑھوایا ہو۔ یہ بالکل اُسی طرح کا بیان ہے جیسا بیان جنرل پرویز مشرف نے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پڑھوایا تھا۔ اُس کی بنیاد پر ہمارے بعض کالم نگاروں نے اسے ’اعترافِ جرم‘ کے طور پر خوب اُچھالا تھا۔ کیا افضال ریحان اتنے گاؤدی ہیں کہ اس بیان کے پس پشت کار فرما شاطر ذہن کو پڑھنے سے قاصر ہیں ؟ افضال ریحان کے خیال میں پاکستان میں اُن کی رہائی کے لیے سرگرداں اور پرجوش