کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 9
اگر اللہ کی بندگی کے بعد، دنیا کو اللہ کی ہدایات کے مطابق گزارنے اور آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی پرسکون او رمنظم وباسہولت بنانے کی کوشش کی جائے تو اس وقت سائنسی علوم کو سیکھنا پسندیدہ ہوگا۔ چونکہ سائنس کا موضوع دنیا پر انسان کے اختیار میں اضافہ اور اس کو پرسہولت بنانا ہے اور دنیا کو پرسہولت بنانیسے اسلام مسلمانوں کو منع نہیں کرتا،کیونکہ اسلام میں رہبانیت ممنوع ہے اور قرآنِ کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے نیک عمل کرنے والے مرد و عورت کو دنیا میں ﴿فَلَنُحْیِـیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً﴾کا وعدہ اور آخرت میں اجر ِ عظیم کا مستحق قرار دیا ہے۔ (النحل: ۹۷) ایک اور مقام پر قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے: ﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اﷲِ الَّتِيْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ہِيَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا فِيْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ﴾ (الاعراف:۳۲ ) ’’کہہ دیجئے: کون ہے جس نے اللہ کی اس زینت وآسائش اور پاکیزہ رزق کو حرام قرار دیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے۔ کہہ دو کہ یہ دنیا میں اہل ایمان کے لئے بھی ہے، لیکن آخرت میں صرف اہل ایمان ہی ان کے حق دار ہوں گے۔‘‘ لیکن دنیا کے اس جائز مقام کے ساتھ ساتھ اسلام اپنے پیروکار کا رخ دنیا کی پرسہولت آرائشوں کی بجائے دائمی فلاح کی طرف موڑتا ہے۔ اسلام میں دین ودنیا کا توازن یہی ہے کہ کامیابی کا دار ومدار آخرت کی نجات کو سمجھاجائے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿فَمْنَ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾ (آلِ عمران: ۱۸۵) ’’جو آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل ہوگیا تو وہی حقیقی کامیاب ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکہ کی ٹٹی ہے۔‘‘ یعنی اسلام کی رو سے آخرت انسان کا مقصد ومقصودِ اصلی ہے، اور دنیا انسان کی ضرورت ہے۔ ضرورت کو مقصودِ حقیقی پر ترجیح نہیں جاسکتی ہے بلکہ ضرورت کو حسب ِحاجت ہی اختیار کیا جاتاہے۔ دوسرے الفاظ میں جس طرح اسلام میں دنیا کے حصول کی نفی نہیں ، اسی طرح دنیوی سہولیات کے علوم کی بھی نفی نہیں ہے، لیکن یہ ایک مسلمان کا مقصودِ اصلی نہیں بلکہ محض وقتی متاعِ حیات کی تنظیم ہے۔ دنیا وآخرت کے بارے میں یہ تصورہمیں ہمارے دین نے دیا ہے، اور یہ