کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 80
کے والد محترم مولوی حافظ محمد یوسف بھی عالم دین ، واعظ اور مبلغ تھے۔ بڑے شریف الطبع انسان، خاموش طبع اور تقویٰ و طہارت کا پیکر تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔ فاروقی صاحب ۱۹۴۴ء میں سوہدرہ میں پیدا ہوئے۔ان کی عصری تعلیم بی اے تھی۔ مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا ہوا تھا۔ طب کی ڈگری طبیہ کالج، کوئٹہ سے حاصل کی تھی۔علومِ اسلامیہ کی تحصیل جامعہ اسلامیہ، گوجرانوالہ اور جامعہ سلفیہ، فیصل آباد سے کی تھی۔ فراغت ِتعلیم کے بعد کوئٹہ چلے گئے۔ وہاں مسجد غزنویہ اہل حدیث کے خطیب مقرر ہوئے اور اس کے ساتھ ہائی سکول میں اسلامیات کی تدریس پر ان کی تعیناتی ہوئی۔کوئٹہ میں ان کا قیام ۱۹۶۹ء تا ۱۹۹۱ء تک رہا۔اس کے بعد سوہدرہ تشریف لے آئے اور اپنی آبائی مسجد میں خطیب مقرر ہوئے۔ اس مسجد میں آپ نے درسِ قرآن اور تدریسِ ترجمہ قرآن کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ سوہدرہ کے گردونواح دیہات میں توحید و سنت کی اشاعت میں سرگرم عمل رہے۔فاروقی صاحب مصنف بھی تھے۔ آپ کی تصانیف یہ ہیں : انوارِ حدیث،مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ،سیرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ، سیرت حسین رضی اللہ عنہ ، عفیفہ کائنات رضی اللہ عنہا ،اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مسئلہ تقلید، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم فاروقی صاحب کا صحافت سے بھی تعلق تھا۔ ۱۹۹۲ء میں پندرہ روزہ ’ضیائے حدیث‘ جاری کیا جو بعد میں ماہانہ ہوگیا اور اب بھی جاری وساری ہے اور اشاعت ِ دین اسلام میں سرگرم عمل ہے۔ فاروقی صاحب پچھلے دو سال سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ علاج معالجہ جاری تھا جس سے کچھ افاقہ ہوجاتا تھا۔ تاآنکہ ۵/ جون۲۰۱۰ء کو وقت ِموعود آن پہنچا اور آپ نے دارالسلام،لاہور کے دفتر میں ۱۲بجے دن اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلَالِ وَالاِکْرَامِ! لاہور میں ان کی نماز جنازہ مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ نے پڑھائی۔ اس کے بعد ان کی میت سوہدرہ لائی گئی۔سوہدرہ میں ان کی نماز جنازہ مولانا ابومحمد عبدالجبار سلفی رکن شعبۂ تحقیق دارالسلام، لاہور نے پڑھائی۔جنازہ میں ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔اس کے بعد اُنہیں ان کے آبائی قبرستان میں ان کے والد ِمحترم کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ؎ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی اِک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے