کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 8
مخلوقات(پانی، ہوا، گیسیں ، لوہے، دھاتیں ، اور دنیا کے اُصولوں ) سے فائدہ اُٹھانے کی حد تک دنیا میں بہت سے نئے مفید پہلو متعارف کرادیے ہیں اوراس میں انسان کامیاب نظر آتا ہے۔اس لحاظ سے سائنس علم کا وہ درجہ ہے جو انسان کے دائرئہ اِدراک میں آسکتاہے۔ جبکہ عقائد ونظریات، جو اسلام کا موضوع ہے، میں آج کا انسان وحی کی رہنمائی کے بغیر آج تک بھٹک رہا ہے۔ شراب ، خنزیر، آزادانہ تخم ریزی، صنفی تعلقات ایسی چند مثالیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عقل ومشاہدہ کی معراج پر پہنچا ہوا انسان، نظریات کے میدان میں پریشان فکر ی اور منتشر خیالی کا مرقع بنا بیٹھا ہے، اور مغربی ممالک کی اسمبلیاں ان کو تحفظ دینے والے ظالمانہ قوانین منظو ر کرکے انسان کی اجتماعی حماقت اور معذوری کا برملا اظہار کررہی ہیں ۔
3.سائنس کا علم اس لحاظ سے بھی ادنیٰ ہے کہ یہ انسان کے لئے پیدا کردہ کائنات کی اشیا کا علم ہے(فزکس وکیمسٹری)، انسانوں کے لئے مفید وپرسہولت معاشروں کی تشکیل کا علم ہے (انجینئرنگ کی مختلف صورتیں )، نباتات و حیاتیات کا علم ہے یابعض صورتوں میں انسانی جسم کی مشینری کا علم ہے (میڈیکل سائنس) لیکن انسان جو بہترین مخلوق ہے، اس کی عظمت اس کے عقل وشعور میں مضمر ہے۔ انسانی جسم کا سب سے پیچیدہ حصہ دماغ ہے جس کی طبی اصلاح پر ابھی تک انسان کو قدرت حاصل نہیں ہوئی۔ اس اصلاح کی قدرت حاصل ہوجانے کے بعد اس دماغ کے اَفکار و نظریات کی سائنسی اصلاح تو ابھی بہت دور کی بات ہے۔ جبکہ مذہب کا موضوع انسان کے طرزِ فکر کی اِصلاح، مقصد ِحیات کا شعور اور پورے انسان کا وظیفۂ حیات ہے۔ یہ اَشرف مخلوق کو اپنے خالق سے جوڑنے اور دائمی فلاح کی طرف انسان کو لے جانے والا صحیفۂ ہدایت ہے۔ اس بنا پر اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی ’اسلام‘ علم کی اعلیٰ ترین نوعیت ہے۔
سائنسی علوم اور اسلام
اسلام میں سائنس کی مخالفت کی بجائے مختلف حالات کے اعتبار سے اس کا شرعی حکم مختلف ہے۔ بعض صورتوں میں سائنسی علم سیکھنا ناجائز، بعض صورتوں میں مستحب اور بعض اوقات اس کو سیکھنا واجب بھی ہوجاتا ہے۔ اگر مقصد محض تسخیر کائنات اور دنیوی تعیشات میں اضافہ ہو، اللہ کے خالق کل جہاں اور قادرِ مطلق ہونے کا انکار ہو تو خالق کے ذکر سے خالی، سائنس کا علم سیکھنا ناجائز ہوگا۔