کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 7
’’فرشتوں نے کہا کہ ہمیں اس کے سوا کوئی علم نہیں جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، تو ہی علیم وحکیم ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کہ آدم! تم ان کے نام فرشتوں کو بیان کرو، جب آدم نے اُنہیں یہ نام بیان کردیے تو اللہ نے کہا کہ میں آسمان وزمین کے غیب کو زیادہ جانتا ہوں ۔‘‘ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کے نام جاننے کو انسان کی تخلیق اور افضیلت پر دلیل ٹھہرایا گیا۔ واضح رہے کہ یہ وجہ ِفضیلت سائنسی علم کی ہے، یعنی امر واقعہ یا امر موجود کو جاننے کی صلاحیت رکھنا، اس سے اسلام میں سائنسی علم کا ثبوت واعتبار بھی ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام اللہ نے اُنہیں سکھائے تھے، جیسا کہ مادہ کے دیگرعلوم بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت ِسمع وبصر اور عقل وتدبر کا ہی حاصل ہیں ۔ لیکن چونکہ یہ صلاحیت اللہ نے انسان میں تخلیق کردی ہے او رباقی مخلوقات میں پیدا نہیں کی، اس بنا پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ اگر کسی شے کی ماہیت و حقیقت سے بڑھ کر اس کے مقصد ِتخلیق اور دنیا میں اس کے فرائض اور ذمہ داریوں سے بحث کی جائے تو یہ مذہب کا موضوع ہے اور انسان اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر اس کے اِدراک سے قاصر ہے۔ قرآنِ کریم یا شریعت ِاسلامیہ کا موضوع سائنس نہیں بلکہ انسان کا مقصد ِحیات اور نظریۂ زندگی ہے۔ انسانوں کے باہمی فرائض اور دنیا میں زندگی گزارنے کے متوازن اُصول کیا ہیں ، ہمارا دین ان سے بحث کرتا ہے۔ اسلام نے دنیوی مفادات کو حرام نہیں ٹھہرایا، موجودات سے استفادہ سے منع نہیں کیا لیکن خالق کائنات نے ایسے اُمور جن سے استفادہ اور انتظام انسان خود کرسکتا تھا، ان کی رہنمائی کو بھی اپنا موضوع نہیں بنایابلکہ ان کی طرف محض اشارے کردینا ہی کافی خیال کیا۔ جستہ جستہ اُصولی ہدایات کے ساتھ انسان میں وہ صلاحیتیں اللہ نے پیداکر دی ہیں جنہیں کام میں لاکر کارگہ ِحیات میں انسان اپنے دنیوی مقاصد بخوبی پورے کرسکتا ہے۔ غرض سائنس اسلام کااس لئے موضوع نہیں کہ یہ علم کا ایسا پہلو ہے جس کے اِدراک کی صلاحیت انسان کے اندر ودیعت کردی گئی ہے۔ جبکہ اسلام کا موضوع جو ہدایت و رہنمائی ہے، انسان اپنے تئیں اس کے اِدراک سے قاصر و معذور ہے۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس دانوں نے انسانی صلاحیتوں کو کام میں لا کر اللہ کی