کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 6
میں ۔ قرآن کریم دراصل ہدایت کی کتاب ہے۔ سائنس چونکہ دنیوی موجودات اور نظام ہائے کائنات پر غور وفکر کے ذریعے زندگی کو پر سہولت اور پرسکون بنانے سے بحث کرتی ہے اور قرآنِ کریم دنیا کی رنگینیوں سے انسانوں کو آخرت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس بنا پر دونوں کے موضوع اور ترجیحات میں فر ق ہے۔ سائنس تسخیر کائنات سے بحث کرتی ہے اور قرآن مخلوقات کو اللہ کا بندہ بنانے کی جستجو کرتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے : ﴿تُسَبِّحُ لَہٗ السَّموَاتُ وَالأرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ، وَاِنْ مِّنْ شِيْئٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰـــکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ ، إِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا﴾ (الاسرائ:۴۴) ’’آسمان وزمین ذاتِ باری تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ، کائنات کی ہر شے اللہ کی حمد وثنا بیان کرتی ہے، لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھنے پر قادر نہیں ہو۔ بلاشبہ وہ بڑے حلم والا، بخشنے والا ہے۔‘‘ 2.مزید برآں سائنس جو ہمیں مادے کی حقیقت اور اس سے استفادہ کے طریقے بیان کرتی ہے (یہ حقائق ووقائع ہیں )، جبکہ ہمارا دین: قرآن وسنت ہمیں ان موجودات کے مقاصد کی طرف رہنمائی کرتے ہیں (یہ عقائد و نظریات ہیں )۔ سائنس کا موضوع کسی شے کی ماہیت اور افادیت ہے، جبکہ دین کا موضوع کسی شے کا صحیح استعمال اور اس میں حق وباطل کا نکھار ہے۔ یہ علم کے دو مراحل ہیں جن میں سے پہلا مرحلہ انسان کے بس میں ہے اور دوسرا وحی کے بغیر انسان کی قدرت سے بالاتر ہے۔ انسان کی تخلیق پہلے مرحلے کی اہلیت کی بنا پر ہوئی ہے، یعنی انسان کی دیگر مخلوقات پر یہ افضلیت ہی کافی ہے کہ انسان اپنی عقل وبصیرت سے کام لے سکتا ہے۔ جیسا کہ تخلیق انسان کے واقعے پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت جتانے کے لئے یہ مکالمہ قائم کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو کچھ نام سکھائے اور پھر فرشتوں سے کہا کہ اگر تم انسان کو تخلیق نہ کرنے کے دعوے میں سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے اپنے قصورِ علم کا اعتراف کیا۔ قرآنِ کریم میں ہے : ﴿قَالُوْا لاَ عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ٭ قَالَ یَآدَمُ اَنْبِئْہُمْ بِاَسْمَائِہِمْ فَلَمَّا اَنْبَائَہُمْ بِاَسْمَائِہِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ …﴾ (البقرۃ: ۳۲،۳۳)