کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 5
اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے طور پر، بطورِ وحی نازل کیا ہے۔ اسی لئے مسلمان وحی کی روشنی میں عقل وتدبر کو کام میں لاتے ہیں ، نہ کہ عقل انسانی کو وحیِ الہامی سے بالاتر تصور کرتے ہیں ۔ ’وحی کی بنا پر حاصل ہونے والا علم‘ ہی اسلام اور مغرب کے مابین علم کے باب میں اختلاف کا مرکز ہے۔ مسلمان یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم اس کائنات کے خالق ومالک کا کلام ہے جس کا کوئی دعویٰ بھی غلط نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ قرآن جو اللہ کا کلامWord of Allah ہے اور پوری کائنات …بہ شمول انسان کی عقل و مشاہدہ… اللہ کی مخلوق اوراس کا فعل Work of Allahہیں تو اللہ کے کلام اور اللہ کی مخلوق /فعل میں تضاد اور مخالفت کیوں کر واقع ہوسکتی ہے؟ اس نکتہ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی مستند سائنسی حقیقت قرآنِ کریم کے مخالف نہیں ہوسکتی، کیونکہ دونوں کا مرجع ایک ہی ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔قرآن زبانِ قال سے اللہ تعالیٰ کی حقیقت بیان کررہا ہے اور سائنس زبانِ حال سے۔ یہی بات قرآنِ کریم میں یوں بیان ہوئی ہے : ﴿سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِيْ الآفَاقِ وَفِيْ اَنْفُسِہِمْ حَتی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہٗ الْحَقُّ﴾ ’’ہم عنقریب اُنہیں آفاق اور ان کی ذاتوں میں اللہ کی ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ قرآنِ کریم کو حق مانے بنا کوئی چارہ نہ رہے گا۔‘‘ (فصلت: ۵۳) ﴿قُلْ اَنْزَلَہٗ الَّذِيْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِيْ السَّمٰوَاتِ وَالأرْضِ، إِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا﴾ ’’کہہ دیجئے کہ قرآن کو اس ذاتِ بار ی نے نازل کیا ہے ، جو آسمان وزمین کے بھیدوں سے خوب واقف ہے، بلاشبہ وہ بہت جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (الفرقان:۶) چنانچہ اگر قرآنِ کریم کے ذریعے بیان ہونے والی کوئی حقیقت ہمارے سائنسی مشاہدے میں نہیں آرہی تو ہمیں صریح اور حتمی علم(قرآن و حدیث) کو ترجیح دینا چاہئے اور اپنے مشاہدے پر مزید محنت کرنا چاہئے تاکہ وہ اللہ کی بیان کردہ حقیقت کے مطابق ہوجائے۔ یہ ایک مسلمان کارویہ ہے جبکہ کافر صرف اپنے مشاہدے کے بل بوتے پر اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو استعمال توکرتا ہے،لیکن اُن کے اور اپنے خالق کا انکار کرتا ہے۔ قرآنِ کریم میں سائنسی علوم کو موضوع کیوں نہیں بنایا گیا؟ 1. قرآنِ کریم میں سائنسی حقائق تو ضرور بیان ہوئے ہیں ، لیکن اشارہ وکنایہ کی زبان