کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 4
کے استعمال کی تلقین کی ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِآیٰتِ رَبِّہِم لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا﴾ (الفرقان: ۷۳) ’’جب انکو اللہ کی آیات سے نصیحت کی جاتی ہے تو اس پر گونگے بہرے ہوکر گر نہیں پڑتے۔‘‘ قرآنِ کریم نے فکر وتدبر کو مخاطب کرتے ہوئے اس کو بھی معتبر دلیل شمار کیا ہے اور کفار کو تلقین کی ہے کہ ﴿ قُلْ إِنَّمَا اَعِظُکُمْ بَوٰحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْمُوْا ﷲ ِمَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍ﴾ ( السبا: ۴۶) ’’اے نبی ! ان سے کہہ دیں کہ میں تمہیں ایک بات کی تلقین کرتا ہوں کہ اللہ کے سامنے اکیلے یا دو دو ہوکر قیام کرو ، پھر فکر وتدبر کرو کہ کیا تمہارا ساتھی(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) واقعتا دیوانہ ہے؟‘‘ اس آیت ِکریمہ میں تفکر وتدبر یعنی عقل کے استعمال کو ایک معتبر دلیل قرار دیا گیا ہے۔ مشاہدہ جس پر سائنس کا انحصار ہے، اس کو بھی قرآنِ کریم نے قابل اعتبار علم کا ماخذ قرار دیا ہے۔ سورۃ الملک میں اللہ عزوجل کا سات آسمانوں کو تہ در تہ تخلیق کرنے کا بیان ہے، جس کے بعد فرمایا: ﴿مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّہُوَ حَسِیْر﴾ (الملک:۴) ’’رحمن کی اس تخلیق میں تو کوئی کمی بیشی نہیں پائے گا، پھر نظر کو دوڑا کر دیکھ لے، کیا کوئی کجی پاتا ہے۔ پھر دوبارہ نظر دوڑا، تیری نظر تیری طرف ناکام ہوکر لوٹ آئے گی۔‘‘ گویا انسانی آنکھ کا آسمان میں کوئی غلطی نہ پانا اللہ تعالیٰ کے بہترین خالق ہونے کی دلیل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنکھ کو اگر کوئی کجی مل جاتی تو اس کا اعتبار کیا جاتا جو یقینا محال ہے۔ قرآنِ کریم میں تفکر وتدبر اور عقل ومشاہدہ کے استعمال کی ترغیب پر بیسیوں آیات موجود ہیں ۔ دراصل علم کے ماخذو سرچشمہ کی یہ بحث اہل مغرب کی پیدا کردہ ہے، وگرنہ سائنس کی اساسات … انسان کو ودیعت کردہ صلاحیتوں … کو قرآنِ کریم نے ایک معتبر ذریعہ علم خیال کیا ہے۔ لیکن ہمارا دین ان انسانی ذرائع سے حاصل ہونے والے علم کو ثانوی قرار دیتا ہے، کیونکہ ان میں غلطی کا امکان موجود ہے، بالمقابل اس علم کے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام یا