کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 39
کے ہاں وجاہت حاصل تھی۔ بلا شبہ انہیں یہ فضائل ایک حد تک حاصل رہے ہیں ۔ مگر ان کی حقیقی قدر و منزلت محض ایمان و عمل اور تقویٰ کے ساتھ اس منصب کی وجہ سے تھی جس کا انہیں ذمہ دار بنایاگیا تھا۔ ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أمَّۃٍ رَّسُوْلًا أنِ اعْبُدُوْا اﷲَ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ﴾ ’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا ہے کہ (لوگو!) عبادت صرف ایک اللہ کی کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچے رہو۔‘‘(النحل:۳۶) چنانچہ ان قدوسی حضرات نے اپنی زندگی کے ہرہر مرحلے پر اپنے ذاتی ذوق و شوق یا قوم برادری کے رسم و ریت کے مقابلے میں ہمیشہ اللہ عزوجل کے قانون و شریعت پر عمل کیا اور اسی کی برملا دعوت دی۔ علیہم الصلاۃ والسلام اس ذمہ داری میں انہیں قوم برادری کی طرف سے بے انتہا اذیتوں اور مشکلات کاسامنا رہا ہے۔مگر انہوں نے صبروثبات اور استقامت کا وہ مظاہرہ فرمایا کہ آخرالامر مخالفین کو بری طرح ناکام ہونا پڑا اور پھر ان کے لگائے الزامات کا دفعیہ بڑے بڑے عجیب انداز میں کیا گیا اور ان کی تاریخ کو رہتی دنیا تک کے لیے بطورِ حجت محفوظ فرما دیا گیا ہے۔ مذکورۃ الصدر آیت کریمہ میں یہ مضمون بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کاشانِ نزول اور اس سے متعلق واقعہ کتب تفاسیر و اَحادیث میں لائق مطالعہ ہے۔[1] اس بارے میں قرآن کریم اور تاریخ اسلام سے مزید چند واقعات قابل غور ہیں ، مثلاً :
[1] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء ( حدیث : 3404) میں آیا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ’’ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی حیادار اور پردے کا اہتمام کرنے والے تھے ۔ حیا کی وجہ سے ان کی جلد کسی نے نہ دیکھی تھی جب کہ قوم بنی اسرائیل بڑی بےباکی سے عریاں ہو کر نہاتے اور ایک دوسرے کودیکھتے بھی تھے ۔ وہ آنجناب کے حیا وپردہ داری کے عمل پر کہنے لگے کہ یہ جو اس طرح چھپتے ہیں ہو نہ ہو اس کے جسم پر یا توبرص ہے یا انہیں ورم خصہ کا عارضہ ہے یا کوئی اور بیماری ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ انہیں اس الزام سے بری فرمائے ۔ ایک دن آپ کسی جگہ غسل کے لیے علیحدہ ہوئے اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیئے اور غسل کرنے لگے ۔ فارغ ہوئے اور کپڑے لینے لگے تو وہ پتھر دوڑ پڑا ۔ آپ نے اپنا عصا لیا اور اس کے پیچھے ہو لیے اور کہتے جاتے تھے : یوبی حجر ! ثوبی حجر ! ( ارے میاں پتھر ! میرے کپڑے ، میرے کپڑے ) حتیٰ کہ وہ بنو اسرائیل کی ایک مجلس تک جا پہنچا تو انہوں نے آپ کو بےلباس دیکھ لیا کہ آپ تو انتہائی حسین و جمیل اور ہر قسم کی بیماری وغیرہ سے پاک صاف تھے ۔ آپ نے اپنے کپڑے زیب تن فرمائے اور اس پتھر کواپنے عصا سے مارنے پیٹنے لگے .... اللہ کی قسم ! پتھر پر آپ کی مار سے تین ، چار یا پانچ نشان پڑ گئے ۔آیت کریمہ کا پس منظر یہی واقعہ ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر پر لگائے گئے الزام کا دفیعہ فرمایا ۔ ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کوہ طور پر گئے اور جناب ہارون کی وفات ہوگئی تو ان لوگوں نے اس کا الزام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر لگا دیا کہ تم ہی نے اسے قتل کیا ہے جبکہ وہ ہمارے لیے تمہاری نسبت بڑے نرم خو اور بڑی محبت کرنے والے تھے ۔اس طرح وہ آپ کواذیت دینے لگے تواللہ نے فرشتوں کوحکم دیا اور وہ ان کی نعش کو اٹھا لائے .... اس طرح انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ طبعی موت ہی مرے ہیں انہیں قتل نہیں کیا گیا ۔مگر یہ قصہ سندا ضعیف ہے ۔( فتح الباری : 6/438)