کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 38
تذکیر وموعظت مولانا عمر فاروق سعیدی٭
عزت تواللہ،اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کی ہے!
آج ہر طرف بے دینی اور مادہ پرستی کا دور دورہ ہے، اسلام کی تعلیم حاصل کرنے والے تو کجا ، اس پر عمل کرنے والوں کو بھی ’کٹھ ملا‘ کہہ کرکھلے عام پھبتی کسی جاتی ہے۔ اُنہیں بزعم خود ’طالبان‘ باور کیا جاتا اور دہشت گردی کے محرک نہ سہی تو ان کے مؤید ضرور شمار کیا جاتا ہے۔ یہ رِیت کوئی نئی نہیں بلکہ ہر دور میں اہل ایمان سمیت انبیا ورسل کو بھی ایسی ایذارسانیوں کاسامنا رہا ہے۔ خلوصِ دل سے دین پر عمل پیرا ہونے والوں کے لئے اس حوالے سے قرآنِ کریم کی تعلیمات تقویت اور طمانیت کا باعث ہیں ۔ ملاحظہ فرمایئے…
﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ آذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَھُ اﷲُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اﷲِ وَجِیْھًا﴾ (الاحزاب:۶۹)
’’اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح مت بنو جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف دی، تو اللہ نے انہیں ان کی اس بات سے جو انہوں نے کہی، بَری فرما دیا، اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے ہی باوقار اور باعزت تھے۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء و رسل بے انتہا عظیم الشان عزوشرف کے حامل ہیں ، ان کا آپس میں تفاضل(مقابلہ وفضیلت) ایک الگ ضمنی مسئلہ ہے۔﴿تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ……﴾ (البقرہ،۲:۲۵۳) ان کا یہ اعزاز و اِکرام محض اس وجہ سے نہیں رہا وہ کسی اونچی قوم برادری کے فرد ہوتے تھے،یا بڑے بڑے خزائن و دفائن کے مالک تھے،یا ان کارنگ و روپ خاص قسم کا جاذبِ قلب و نظر ہوتا تھا،یا کسی سیاسی و سماجی رُعب و داب کی وجہ سے انہیں اللہ
٭ شیخ الحدیث ، مراة القرآن للبنات ، منڈی وار برٹن ، ننکانہ صاحب
[1] ’ وجیہ ‘ کے یہ معنی بیان ہوئے ہیں : سردار ، بڑی عزت وقار اورمرتبے والے ۔ اللہ کے ہاں قربت والے ، مقبول اور مستجاب الدعاء ۔ لوگوں کو ہاں یا اللہ کے ہاں پسندیدہ ، محبوب ، مقبول ، آبرو اور رعب والا شخص ، جسکے متعلق لوگوں کوکچھ اعتراض ہو بھی تو اس کے منہ پر کچھ نہ کہ سکیں اور ادھر ادھر باتیں کرتے پھریں ۔