کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 36
شَھْر. تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنَ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ.سَلاَمٌ ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾ (سورۃالقدر)
’’یقینا ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا، آپ کیاسمجھے کہ شب ِقدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں ہرقسم کے معاملات سرانجام دینے کو اللہ کے حکم سے فرشتے اور روح الامین اترتے ہیں ۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔‘‘
فرمایا:﴿إنَّا أنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ . فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ أمْرٍ حَکِیْمٍ. أمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إنَّاکُنَّا مُرْسِلِیْنَ﴾ (الدخان:۳۔۵)
’’یقینا ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں نازل کیا بے شک ہم ڈرانے والے ہیں ۔ اس رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ ہماری جانب سے ہے اور ہم بھیجنے والے ہیں ۔‘‘
نوٹ: بعض لوگوں نے اس آیت سے مراد ۱۵ شعبان کی رات کو قرار دیا ہے جو درست اور ثابت شدہ نہیں ہے بلکہ اس آیت میں لیلۃ مبارکۃ سے مرادشب ِقدرہی ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق رات ہے۔
٭ قیام لیلۃ القدر:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من قام لیلۃ القدر إیمانًا واحتسابًا غُفرلہ ما تقدّم من ذنبہ)) (بخاری:۲۰۱۴)
’’جس نے شب قدر کا قیام ایمان وثواب سمجھ کر کیااس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے گئے۔‘‘
٭ لیلۃ القدر کب؟شب ِقدر رمضان کے آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أن رسول اﷲ ! قال:((تحرّوا لیلۃ القدر في الوتر من العشر الأواخر من رمضان )) (صحیح بخاری:۲۰۱۷)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
آخری عشرہ اور شب ِقدر کے لیے خصوصی اہتمام
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :