کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 34
اپنی نذر پوری کرو۔‘‘
٭ اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں :اعتکاف کے لیے روزہ کی شرط کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔مذکورہ بالا حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رات کے اعتکاف کی اجازت دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اعتکاف کے لیے شرط نہیں ہے، کیونکہ رات کو تو روزہ نہیں رکھا جاتا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بغیر روزہ کے اعتکاف کی نذر پوری کی۔
٭ اِعتکاف میں کب داخل ہوا جائے؟
اس مسئلہ میں دو طرح کی احادیث پائی جاتی ہیں ۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
’’أن النبي کان یعتکف في العشر الأواخر من رمضان ‘‘(صحیح مسلم:۱۱۷۱)
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔‘‘
اور دوسری حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے، فرماتی ہیں :
’’کان رسول اﷲ إذا أراد أن یعتکف صلی الفجر ثم دخل معتکفہ‘‘
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہوتے۔‘‘(صحیح مسلم:۱۱۷۳)
پہلی روایت کے مطابق عشرہ یعنی دس دن میں بیس کی رات بھی شامل ہے جب کہ حضرت عائشہ والی روایت میں فجر کی نماز کے بعد اعتکاف کرنے کا ذکر ہے۔اہل علم نے ان دونوں روایات میں یہ تطبیق دی ہے کہ بیس کی رات معتکف اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو جائے اور صبح نمازِ فجر کے بعد اعتکاف میں داخل ہو۔واللہ اعلم
ممنوعات و مفسداتِ اعتکاف
٭ جماع:اعتکاف کی حالت میں جماع سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔قرآن میں ہے: ﴿وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰـــــکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ﴾ (البقرہ:۱۸۷)
’’اور تم بیویوں سے مباشرت نہ کرو اس وقت کہ جب تم مسجدوں میں معتکف ہو۔‘‘
٭ حیض و نفاس:حیض و نفاس کی حالت میں اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے، کیونکہ اس حالت میں عورت کو مسجد میں ٹھہرنے سے منع کیاگیا ہے۔