کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 33
’’جو شخص تین راتوں سے کم وقت میں قرآنِ مجید ختم کرتا ہے، وہ دراصل قرآن کوسمجھتا نہیں ۔‘‘
اِعتکاف اور اس کے مسائل
’اعتکاف‘ لغوی طور پر کسی چیز پر جم کربیٹھ جانے کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں اللہ کی عبادت کے لیے تمام دنیاوی معاملات ترک کرنے اور مسجد میں گوشہ نشین ہوجانے کو اعتکاف کہتے ہیں ۔
اِعتکاف نفل عبادت ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کے تمام دنوں میں ثابت ہے لیکن آخری سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل عمل یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرہ میں ہی اعتکاف فرمایا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’’أن النبي ! کان یعتکف العشر الأواخر من رمضان حتی توفاہ اﷲ تعالیٰ ثم اعتکف أزواجہ من بعدہ‘‘ (صحیح بخاری:۲۰۲۶)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیاکرتے تھے حتی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے فوت کردیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اعتکاف کرتی تھیں ۔‘‘
مسائل اعتکاف
٭ اعتکاف صرف مسجد میں ہوسکتاہے:اعتکاف کا تعلق مسجد سے ہے، قرآن میں ہے:
﴿وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَأنْتُمْ عٰــــکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ﴾ (البقرہ:۱۸۷)
’’اور تم عورتوں سے مباشرت نہ کرو جب تم مساجد میں اعتکاف کرنے والے ہو۔‘‘
اس کے علاوہ صحابہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کیاکرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواجِ مطہرات بھی مسجد میں اعتکاف فرماتیں اور اس دور کا ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف کیا ہو۔
٭ رمضان کے علاوہ دنوں کا اعتکاف اور مدت:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أن عمر سأل النبي ! قال: کنت نذرتُ في الجاھلیۃ أن أعتکف لیلۃ في المسجد الحرام قال: ((أوفِ بنذرک)) (صحیح بخاری: ۲۰۳۲)
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک رات کے لیے مسجد حرام میں اعتکاف کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: