کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 31
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں نماز پڑھائی۔ پھر صبح کے وقت اُنہوں نے (اور لوگوں کوبھی) بتایا۔ چنانچہ تیسری رات پہلے سے بھی زیادہ لوگ جمع ہوگئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور اُنہیں نماز پڑھائی۔ پھر چوتھی رات اتنے لوگ جمع ہوچکے تھے کہ مسجدمیں پاؤں رکھنے کو جگہ نہ تھی (مگر اس رات قیامِ رمضان کے لیے نہ نکلے) بلکہ فجر کی نماز کے وقت نکلے اورنمازِ فجر کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا ((أما بعد فإنہ لم یخف علي مکانکم ولکني خشیت أن تفرض علیکم فتعجزوا عنھا)) مجھے تمہاری آمد کا علم ہوچکاتھا مگر میں اس لیے باہر نہ آیا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ کردی جائے اور پھرتم اسے اس طرح ادا نہ کرپاؤ، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک لوگوں کو تراویح نہ پڑھائی۔‘‘ (صحیح بخاری:۲۰۱۲) مذکورہ بالا حدیث سے پتہ چلا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن نمازِ تراویح باجماعت پڑھائیں اور پھر اس ڈر سے کہ کہیں لوگوں پر مشقت کا باعث نہ بن جائے، چوتھے دن نہ پڑھائیں ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں باقاعدہ نمازِ تراویح کا باجماعت اہتمام ہونے لگا۔ عبدالرحمن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ ’’میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجدمیں گیا، لوگ متفرق اور منتشر تھے۔ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا اور کچھ لوگ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اگر تمام لوگوں کو ایک ہی قاری کے پیچھے جمع کردیا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔ چنانچہ اُنہوں نے یہی قصد کرکے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان سب کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات آپ نکلے۔ دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نمازِ تراویح پڑھ رہے ہیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:یہ اچھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس لیے کی کیونکہ لوگ رات کے اوّل حصے میں نمازِ تراویح پڑھ لیتے تھے۔ ‘‘ (صحیح بخاری:۲۰۱۰) مذکورہ اَحادیث سے پتہ چلا کہ قیامِ رمضان کا اہتمام نمازِ عشاء کے بعد سے لے کر فجر کی اَذان تک کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔ اگر اسے تاخیر سے پڑھا جائے تو یہ افضل ہے جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا۔ ٭ نمازِ تراویح کی تعدادِ رکعات:نمازِ تراویح کی رکعات کی تعداد کے بارے صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عام طور پر گیارہ رکعات ثابت ہیں ۔ چونکہ یہ تہجد ہی کی نماز ہے، اس لیے رمضان اور غیررمضان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر معمول یہی رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ