کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 29
سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو رکھ لو ورنہ نہ رکھو۔‘‘ اسی طرح سفر کے دوران روزہ چھوڑا بھی جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کنا نسافر مع النبي ! فلم یعب الصائم علی المُفطر ولا المفطر علی الصائم (صحیح بخاری:۱۹۴۷) ’’ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتے چنانچہ روزہ رکھنے والے روزہ چھوڑنے والوں پراور نہ روزہ چھوڑنے والے روزہ رکھنے والوں پر اعتراض کرتے۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (حالت ِسفر) میں روزہ رکھا بھی ہے اور روزہ چھوڑا بھی۔ اس لیے تم میں سے جوچاہے (حالت ِسفر میں ) روزہ رکھے اور جو چاہے، نہ رکھے۔ (صحیح بخاری:۱۹۴۸) ٭ بیماری اور بڑھاپے کے دوران : بیمار اپنی بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور جب تندرست ہوجائے تو ان کی قضا دے دے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿فَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا أوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ أخَرَ﴾(البقرۃ:۱۸۴)’’پس جو مریض ہو یا مسافر ہو، وہ دوسرے ایام میں روزے پورے کرے۔‘‘دائمی مریض اور بوڑھے کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ صدقہ کے طور پر ایک مسکین کو تمام روزوں کے دنوں کاکھانا کھلا دے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ’’وہ بوڑھا مرد یا عورت جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، وہ ہرروزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔‘‘ (صحیح بخاری:۴۵۰۵) ٭ حمل اور رضاعت کے دوران:حاملہ اور مرضعہ کے لیے بھی روزہ میں رخصت ہے کہ وہ بعد میں اس کی قضا دے دے۔ حدیث میں ہے کہ ((إن اﷲ وضع شطر الصلاۃ أو نصف الصلاۃ والصوم عن المسافر وعن المرضع أو الحُبلی)) (سنن ابوداؤد:۲۴۰۸) ’’اللہ تعالیٰ نے مسافر، دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کو آدھی نماز اور روزے کے سلسلہ میں رخصت دے دی ہے۔‘‘ اِفطاری ٭ اِفطاری میں تعجیل:آفتاب غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرلینا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم