کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 21
’’بے شک (جب میں پہلی سیڑھی چڑھا) تو حضرت جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام میرے پاس آکر بددعا کرنے لگے: وہ شخص رحمت ِالٰہی سے دور ہوجائے جورمضان کامہینہ پالے پھر اس کی بخشش نہ ہو۔ میں نے کہا: آمین! جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل نے کہا: وہ شخص رحمت ِالٰہی سے دور ہو جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود نہ بھیجے۔ میں نے کہا: آمین اور جب تیسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل نے پھر بددعا کی کہ وہ شخص رحمت ِالٰہی سے دور ہو جس کے سامنے اس کے ماں اور باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپا پہنچا اور اُنہوں نے اسے جنت میں داخل نہ کرایا تو میں نے کہا:آمین۔‘‘ روزہ کے مسائل و اَحکام چاند دیکھنا رمضان کامہینہ جب شروع ہو تو روزوں کی ابتدا کی جائے اور اُمت کے لیے شارع نے یہ ضابطہ دیا ہے کہ جب ماہِ رمضان کا چاند نظر آجائے، تب روزے رکھنا شروع کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا تصوموا حتی تروا الھلال ولا تفطروا حتی تروہ)) (صحیح بخاری:۱۹۰۶) ’’اس وقت تک روزہ کا آغاز نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور نہ ہی روزے ختم کرو جب تک (شوال کا) چاند نظر نہ آجائے۔‘‘ چاندنظر نہ آنے کی صورت میں اگر مطلع آبرآلود ہو جس کی وجہ سے چاند دیکھنے میں رکاوٹ آرہی ہو تو اِن حالات میں اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کرلیے جائیں اور یکم رمضان سے روزہ شروع کردیا جائے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ فإن غُبِّی علیکم فأکملوا عدۃ شعبان ثلاثین)) (صحیح بخاری:۱۹۰۹) ’’(ماہِ رمضان) کا چاند دیکھ کر روزے شروع کرو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر اسے ختم کرو۔ اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے مہینے کے تیس دن پورے کرلو۔‘‘ مطلع ابر آلود ہونے کے باعث چاند نہ دیکھنے کی وجہ سے رمضان کے شروع یا اختتام کے