کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 15
بہترین دورقرار دیتی ہے، کیونکہ اس میں خواہش نفس کی تسکین بخوبی ہوتی ہے اور دنیوی زندگی آرائش وآسائش کے ساتھ بسر ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مسلمان کی ہدف و منزل اورسوچ ونظریہ اس شخص سے بڑا مختلف ہوتا ہے جو صرف دنیا کو ہی اپنا کل مفاد قرار دیتا ہے۔ افسوس کہ آج کا مسلمان مغربی تعلیم وابلاغ سے بہرہ و رہونے کے بعد اپنے مقصد ونظریہ کو بھی مسخ کربیٹھا ہے۔ کوتاہ نظر انسان ہونے کے ناطے ہم بھی مغربی نظریات کو اپنا سکتے ہیں کہ اس سے دنیا سنورتی اور عیش وسہولت میں زندگی بسر ہوتی ہے… جبکہ یہ عیش پرستی بھی ایک مغالطہ ہی ہے کیونکہ تمام دنیا پرستوں کو ہی اللہ تعالیٰ دنیوی لذات سے بہرہ مند نہیں فرماتے… لیکن ایک مخلوق ہونے کے ناطے ہمیں اپنے خالق کو بھول نہیں جانا چاہئے۔ وہ خالق جس کی عطا کے لمحہ لمحہ ہم محتاج ہیں ، جس نے ذرّے ذرّے کا حساب لینا ہے۔ جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہم میں تمام صلاحیتیں تخلیق کیں ۔ اللہ سے غافل انسان کی مثال تو ایسے ہی ہے کہ کسی کو چند گھنٹوں کی مہلت ملے اور وہ اس مہلت کو پیش نظر امتحان کی تیاری کی بجائے عیش پرستی اور موج میلے میں گزار دے، اور امتحان کو بھلانے کی کوشش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا پرست مغربی انسان کے لئے خالق کا تذکرہ بڑا روح فرسا ہے۔ وہ ہر لمحہ اس کوشش میں گزارتا ہے کہ اسے کسی خالق کو تسلیم نہ کرنا پڑے، اس کے لئے وہ کبھی قدرت، کبھی فطرت اور کبھی آفاقی اُصولوں میں پناہ لیتا ہے۔ ابتداے آفرینش کی تفصیلات اور اس کی ایسی توجیہ جس سے خالق کا انکار ممکن ہوجائے، اسے بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اپنی عمر کو طویل سے طویل تر کرنے میں مگن رہتا اور موت کے تذکرے سے جان بچاتا ہے۔لیکن جب اچانک موت کی گھڑی آ جاتی ہے تو پھر اس کی ساری پر تعیش جنت غارت ہوکر رہ جاتی ہے اور آخری فیصلہ تو روزِ محشر ربّ ذوالجلال کے سامنے ہونا ہی ہے جہاں ہر انسان کو لا تزول قدما عبد حتی یسأل عن أربع… قدم اُٹھانے سے قبل چار باتوں کا حساب دے کر ہی آگے بڑھنا ممکن ہوگا: اپنی عمر، اپنا مال، اپنے جسم اور اپنے علم کے بارے میں کہ کیسے حاصل کیا اور کہاں صرف کیا؟ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں بھی غورکرنا چاہئے اور ہماری مقتدرہ کو سوچنا چاہئے کہ