کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 13
دنیوی مفادات کا حصول اور اسلام مغرب کی ’تحریک احیائے علوم‘ کا پہلا نکتہ علم کو وحی واِلہام سے نکالنا اور عقل ومشاہدہ تک محدود ومنحصر کرنا تھا جس پر تبصرہ پیچھے گزر چکا ہے کہ اسلام علم کو دونوں ذرائع (الہامی وانسانی) تک وسیع کرتا اور دونوں میں ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ اس تحریک کا دوسرا مرکزی نکتہ ہر کام کو دنیوی مفادات کے نقطہ نظر سے بروئے کار لانا تھا۔ ان دو نکات کے اعتبار سے مغرب کی یہ تحریک مذہب سے بغاوت اور خواہشِ نفس یعنی انسان پرستی کی تحریک ہے۔ اس پر قائم سارا معاشرہ اسی فکرونظر کا شاہکار ہے، آج آپ کو مغرب کے ہر رویے کے پیچھے یہ دو اساسی عناصر پوری طرح کارفرما نظر آئیں گے۔ مغربی سائنس بھی اسی طرزِ فکر پر قائم ہے اور مغربی علوم یعنی سکول وکالج میں پڑھائے جانے والے نصابات بھی اس رویے کے شاہکار ہیں ۔ اس سائنس اور علم و تہذیب کو جدید سائنس، جدید تعلیم، اور جدید تہذیب کی بجائے مغربی سائنس اور مغربی تعلیم اور مغربی تہذیب سے تعبیر کرنا زیادہ موزوں ہے کیونکہ اپنے اساسی نظریات کی بنا پر یہ خلاقِ عالم کے ذکر سے خالی اور اس کے مقاصد سے باغی دائرہ ہائے حیات ہیں ۔ مغربی تصورِ ابلاغ ہو یا تصورِ معاشرہ، معیشت ہو یا سیاست، ہر جگہ ربّ کی بندگی سے بغاوت اورانسان کی بے لگام خواہشات کی حاکمیت مغرب کے مادی نظریۂ زندگی کا صلہ ہے۔ آج افسوس کا مقام ہے کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی مغربی نظریات پر عمل پیرا ہیں ۔ اگر تو کوئی سائنسی علوم کی تحصیل کرے تو اس کو قابل و ماہر خیال کیا جاتا ہے اور عقل وذہانت کا درست استعمال قرار دیا جاتا ہے۔ سائنسی علوم کی برتری کیا یہی ہے کہ وہ ہماری چند روزہ دنیا سنوارتے ہیں اور اسلامی علوم کا جرم یہی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ آخرت کی کامیابی اور خالق کی رضا مندی اور اس کے احکامات پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ ایک سادہ مثال کے طورپر ایک انسان الیکٹریکل انجینئر ہے، توانائی کی ایک صورت’ بجلی‘ کی نت نئے شکلوں کا ماہر ہے۔ اس کے بہتر سے بہتر استعمال پر قدرت رکھتا ہے۔ اس انجینئرکے اس سارے کمالات کا مرکزدنیوی فوائد کا حصول ہے۔ اس بنا پر اس کو معاشرے میں نت نئی جاب اور روزگارکے مواقع حاصل ہوتے ہیں ، کیونکہ مغربی ڈھانچے پر قائم ہمارا مادی معاشرہ اب صرف دنیا میں ترقی کا ہدف پیش نظر رکھتا ہے۔ اسی طرح کوئی انسان لوگوں کے حسابات بنانے کے فنون سے