کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 12
مِّنَ الْعِلْمِ، إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اہْتَدٰی﴾ ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اس شخص سے تو اِعراض کر جو ہماری یاد سے منہ پھیرتا اور صرف دنیا کا طالب ہے۔ ان کا مبلغ علم یہی ہے، اور تیرا ربّ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے گمراہ اور کون ہدایت یافتہ ہے۔‘‘ (النجم:۲۹) سابقہ حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں افضلیت اور اوّلیت اسلام کے علم اور عمل کو حاصل ہے۔ کسی مسلم خاندان ومعاشرہ میں اسی کو اَوّلیت دی جائے گی۔ جبکہ سائنسی علوم بھی اسلام کے مطالبے کی روشنی میں مسلمانوں کو سیکھنا ضروری ہیں ۔ غلبہ دین کے قرآنی مقصد کے لئے دنیا میں اللہ کی پیدا کردہ قوتوں سے بہتر استفادہ کی صلاحیت حاصل کئے بغیر ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر اسلامی مہارت اور اَہداف کے تعین کے بغیر ہم سائنسی علوم میں پڑیں گے تو موجودہ مغربی نظریات پر کاربند سائنس ہمیں مغربی نظریات کا ہی کل پرزہ بنا دے گی، اس لئے کہ آج کی سائنس بے نظریہ نہیں بلکہ مغربی نظریۂ حیات کی آلہ کار ہے۔ اس ترتیب و ترجیح کی دلیل یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد سب سے پہلے اللہ سے تعلق مستحکم کرنے والی مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم تعمیر کی اور اپنے صحابہ کو اللہ کی بندگی کے آداب سکھائے۔ دورِ نبوی میں مدنی معاشرہ میں تمدنی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں ، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں اسلامی معاشرہ مثالی بنتا گیا، توں توں نظم وانتظام اور شہری سہولیات کے میدان میں بھی ترقی کی گئی اور ہرشعبۂ زندگی کی تنظیم ہوئی۔ اسی طرح ملت اسلامیہ نے پہلے کتاب وسنت کے علوم کو منظم ومدون کیا اور امت اسلامیہ کا علوم کا سنہرا دور قرآن وسنت کے علوم کی ترقی کا ہی زمانہ ہے۔ اس کے بعد اگلی صدیوں میں یا اس کے پہلو بہ پہلو مسلمانوں نے سائنسی علوم کی طرف بھی توجہ کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیوی نظم وانتظام کی بھی اسلام ہمیں ترغیب وتلقین کرتا ہے۔ سائنسی علوم کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ البتہ اس کی ترتیب مغربی تہذیب سے مختلف ہے، جن کے ہاں سب کچھ دنیوی ترقی ہی ہے۔ چونکہ اسلام انسان کی ترجیحات کو تبدیل کرکے اسے آخرت کی طرف متوجہ کرتا ہے، اس لئے اہل مغرب کے ہاں تومذہبی تعلیم کو سرے سے ہی دیس نکالا دیا جانا ضروری ہے۔