کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 11
دینی اور دنیوی علوم کی ترتیب و ترجیح
اس ترتیب و ترجیح کا انحصار اسلام کے نظریۂ حیات پر ہے۔ کیا دنیا کی فلاح کسی مسلمان کا مقصودِ حقیقی ہے ، یا آخرت کی فلاح؟ کیا اللہ نے دنیا کو انسان کی آسائش وآرائش کے لئے پیدا کیا ہے یا اپنی بندگی کے لئے؟ جس کا نتیجہ آخرت میں ثواب وعقاب کی صورت میں ملے گا۔ اسلام کا یہ موقف بڑا واضح ہے جس پر قرآن کی سیکڑوں آیات موجود ہیں ۔
اَب جو انسان کی پہلی ضرورت اور خالق کا پہلا تقاضا ہے، اس کو ہی پہلے سیکھنا ضروری ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انسان کی پہلی ضرورت اللہ کی بندگی اور آخرت کی کامیابی ہے، دنیا میں انسان اللہ کی اطاعت وبندگی کے لئے ہی آیا ہے، اس لئے پہلے اسے سیکھنا ہوگا۔ اور جب اسلام دنیا کی زینت کو ناجائز قرار نہیں دیتا تو اس حد تک سہولیات کے ان علوم کو سیکھنا بھی جائز ہوگا۔ جب دنیا سنوارنے کے یہ علوم کسی معاشرے میں ناپید ہونے کا خطرہ ہوجائے تو اس وقت علومِ اسلامیہ کے بعد اِن دنیوی علوم کا احیا بھی مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہوگا، اور اگر کفار ان دنیوی علوم کی بنا پر مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرلیں جیسا کہ گذشتہ دو صدیوں کی تاریخ اس پر شاہد ہے، تو پھر سائنسی علوم سیکھ کر اس غلبہ کا خاتمہ کرنا ملت ِاسلامیہ پر واجب ہوجاتا ہے۔
آج ہم دنیوی لحاظ سے مغلوب ہیں اور دینی لحاظ سے بھی محروم۔ اس لئے صرف دنیوی غلبہ کے خاتمہ سے آغاز کرنے کی بجائے پہلے علومِ اسلامیہ کے احیا اور اس کو زندہ کرنے پر توجہ صرف کرنا ہوگی اور ملت ِ اسلامیہ کے تحفظ کے لئے سائنسی علوم کو بھی سیکھنا ہوگا۔
آج ہمارے مغربی تعلیم یافتہ حضرات ملت ِاسلامیہ کی مغلوبیت کی بجائے اگر محض دنیوی تعیشات اور دنیوی ترقی کے لئے سائنسی علوم میں پناہ لینا چاہتے ہیں تو اُنہیں عام مسلمانوں کی قرآنِ مجید سے عدم واقفیت اور آخرت میں ان کے بد انجام کی بھی فکر ہونا چاہئے۔ مدارسِ دینیہ کے طلبہ کو معاشی علوم کی تلقین کرنے والوں کو سکول وکالج کے طلبہ کو آخرت سنوارنے کے علوم کی ہدایت کرنا بھی اشد ضروری ہے۔ کیونکہ ایسا علم جس کا مقصد محض چند روزہ دنیا کمانا ہو، اللہ تعالیٰ اسے مذموم قرار دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے:
﴿فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ إِلَّا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا، ذٰلِکَ مَبْلَغُہُمْ