کتاب: محدث شمارہ 340 - صفحہ 10
عقیدہ انسان اپنی سمجھ بوجھ سے حاصل نہیں کرسکتا بلکہ ایک اللہ پر ایمان لانے اور ایک نبی کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننے کے بعد وحی کے ذریعے مسلمانوں کو حاصل ہوا ہے۔
سائنس کا علم سیکھنا ناجائز کب؟:اس کے بالمقابل ایک نظریۂ زندگی اہل مغرب نے بھی دیا ہے کہ ’’دنیا کو زیادہ سے زیادہ پرسہولت وپرآسائش بناؤ اور اس کو جنت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑو۔ جب آخرت آئے گی، تب دیکھا جائے گا۔‘‘ چونکہ جدید سائنس نے مغرب میں ترقی پائی ہے، اس لئے اہل مغرب کا یہ نظریہ جدید سائنس میں بھی فروغ پاگیا ہے۔ جبکہ سائنس کا میدان اصلاً موجودات میں موجود حقائق کی دریافت اور ان سے بہتر استفادہ تک محدود ہے۔ نظریات جو دو اور دو چار کی طرح نہ تو مسلمہ اور دو ٹوک ہوتے ہیں اور نہ مشاہدہ سے حاصل ہوتے ہیں ، یہ سائنس کا میدان ہی نہیں ہے، لیکن اہل مغرب کے ہاتھوں سائنس کے پروان چڑھنے کی بنا پر آج کی سائنس بھی مغرب کی نظریاتی مغلوبیت کا شکار ہوچکی ہے۔
جو علم جس قوم کے ہاتھوں پروان چڑھے، اس قوم کی تہذیب وتمدن اور اَفکار کا اس میں رچ بس جانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح اب سائنس بے نظریہ یا ’نیوٹرل ویلیو‘ نہیں رہی بلکہ موجوہ سائنس نظریۂ ارتقا، بقاے اَصلح بلکہ اقویٰ، اِلحاد ودہریت، تعیش پرستی، اِسراف و ضیاع، ہلاکت وتسخیر اور دنیا پرستی کی خادم بنی ہوئی ہے۔ اسے ہم ’مغربی سائنس‘ کہہ سکتے ہیں ، ان مقاصد کیلئے سائنس کو سیکھنا درست نہیں ہے جبکہ سائنس کو اِلحاد ودہریت کے چنگل سے چھڑا کر اُس حد تک اپنایا جاسکتا ہے جہاں تک اسلام نے دنیا کو بخوبی گزارنے کی اجازت دی ہے۔
سائنس کا علم سیکھنا واجب کب؟ : آج کل کے حالات میں سائنس کی ضرورت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اگر یہ مغربی سائنس کفار کے عسکری وابلاغی غلبہ کی اساس بنی ہوئی ہے تو پھر ان کے جوابی مقابلہ کے لئے ان میدانوں میں اس سے بالا تر سائنس کی مہارت اسلام کا مقصد ومطلوب ٹھہرتی ہے، کیونکہ شریعت ِاسلامیہ ہمیں غیروں سے بہتر تیاری کا پابند بناتی اور اس کا حکم دیتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب کچھ مسلمان فرد و ملت کی تقویت کے طور پر کیا جائے گا، نہ کہ دنیوی تعیشات کی خاطر۔ اس لئے اس تقویت سے قبل اسلامیت کی تشکیل یعنی علومِ اسلامیہ کی مہارت اور مسلم اُمہ کی تیاری اوّلین ترجیح قرار پائے گی۔