کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 8
میں ڈھل جائے کہ اس کی بات بات سے سیرت رسولصلی اللہ علیہ وسلمکی خوشبو آئے!
قومی تشخص اور حُبِّ رسولصلی اللہ علیہ وسلمکا تقاضا یقیناً یہ بھی ہے کہ انسان کی شکل و صورت اور وضع قطع ایسی ہو جیسی آقائے دو جہانصلی اللہ علیہ وسلمکی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے زیادہ ضروری بات اس اندازِ فکر اور لائحہ عمل کو اپنا لینا ہے جس اسلام کا فلسفۂ زندگی کہا جاتا ہے کیونکہ قرآن کی رو سے انسان کا اصل لباس اس کا تقویٰ ہے۔ یا کم از کم یہ بات تو بہرحال ضروری ٹھہرتی ہے کہ جو شخص وضع قطع میں مسلمان ہو اس کے کردار اور سیرت میں اسلام کے اصولوں کی جھلک اور چمک بھی ضرور نظر آنی چاہئے۔
ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی تعداد ستر اور اسی کروڑ کے درمیان ہے اور خدا کے فضل سے یہ پورے کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پانچوں برّ اعظموں اور معلوم جزائر میں سے شاید ہی کوئی بڑی بستی ایسی ہو گی جہاں کوئی کلمہ گو تو آباد نہ ہو گا لیکن اسی قوم کے اثر و اقتدار کا یہ حال ہے۔ کہ یہ ہر جگہ کافروں او مشرکوں کی دبیل اور اکثر معاملات میں ان کی دست نگر ہے، جب کہ قرونِ اولیٰ میں جب توحید کے علمبردار طوفانی لہروں کی طرح روئے زمین پر پھیل گے تھے اور کوئی طاقت ان کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکی تھی ان کی گنتی چند لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔
آخر ہم کیوں غائب و خاسر اور وہ کیوں سر بلند و کامگار تھے؟ یقیناً اس لئے کہ وہ حبِّ رسولصلی اللہ علیہ وسلمکے تقاضوں سے پوری طرح آشنا تھے اور قرآن کی تعلیمات ان کے رگ و ریشے میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ وہ اپنے محبوب رسول کے کسی حکم سے بھی انحراف نہ کرتے تھے۔
٭ جب انسے کہا گیا خدائے واحد کے سوا تمہارا سر کسی کے سامنے نہیں جھکنا چاہے تو پھر یہ تو ہوا کہ ظلم کی تلواروں نے ان کے سر تن سے جدا کر دیئے مگر یہ کبھی نہ ہوا کہ بہ رضا و رغبت ان میں سے کسی کا سر غیر اللہ کے سامنے جھک گیا ہو۔
٭ جب ان سے کہا گیا، شرک کے علاوہ زنا، جوا، شراب نوشی، جھوٹ، غیبت، عیب جوئی، اتہام تراشی، چوری، دختر کشی اور ایسے ہی تمام اعمال قبیحہ سے تائب ہو جاؤ اور پھر کسی صورت میں بھی ان کے قریب نہ جانا! تو وہ ایسے طاہر و مطہر ہو گئے کہ شاید فرشتوں کو بھی ان کے تقدس اور طہارت پر رشک آتا ہو گا۔
٭ جب ان سے کہا گیا خاندانی غرور، نسل اور رنگ کا فخر، طاقت کا نشہ، دولت کی