کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 5
کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ گویا معجزہ بھی آپ کو لاثانی ہی عطا فرمایا گیا۔ اُمت کے لحاظ سے اگر آپ نبی کریم کی ذات پر نظر ڈالیں تو فوراً احساس ہوتا ہے کہ اس باب میں بھی کوئی آپ کا مد مقابل نہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس امت کا دین کامل اور اکمل ہے۔ دوسرے یہ کہ ابدی ہے اب اس میں کسی بنیادی تبدیلی کا امکان نہیں۔ یہ ایک بہت بڑا شرف ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کی دو بڑی خصوصیات بیان کی ہیں ایک تو یہ ہے کہ یہ امت اپنی نوعیت اور کیفیت کے لحاظ سے ’’امت وسط‘‘ ہے یعنی اس کی زندگی کے اصول و قوانین درمیان کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں افراط و تفریط سے بچاتے ہیں اس کے مقابلے میں دنیا کے جتنے ادیان پر آپ نظر ڈالیں فوراً یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ اکثر معاملات میں وہاں افراط و تفریط کی قباحت نظر آتی ہے یعنی توازن و اعتدال غائب ہے مثلاً عیسائیت کہتی ہے کہ زندگی مردود ہے اسے ترک کرو اور رہبانیت اختیار کرو کیوں کہ اس کی ابتداء ہی گناہ سے ہوئی ہے لیکن اسلام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ زندگی گناہ کا ثمرہ نہیں۔ حضرت آدم علیہ السلامو حوا علیہ السلامکا گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا تھا بلکہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلمنے واضح طور پر فرما دیا۔ ’’لَا رَھْبَانِيَّةَ فِيْ الْاِسْلَامِ‘‘ یعنی اسلام میں رہبانیت اور ترکِ دنیا کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر ترکِ دنیا اور ترکِ حیات کا جواز ہوتا زندگی پیدا ہی کیوں ہوتی پھر تو تخلیقِ کائنات ایک عبث فعل ہو جاتا ہے۔ اسلام نے دین و دنیا میں توازن اور اعتدال قائم کیا ہے۔ دنیا کو مزرعۃ الآخرت کہا۔ خود کشی اور خود آزاری کو حرام قرار دیا۔ بلکہ قرآنِ کریم میں جو بہترین دعا شمار کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ: ’’رَبَّنَا اٰتِنَا فِيْ الدُّنْيَا حَسَنَةً وفي الْاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّار‘‘ یعنی اسے رب ہمارے ہمیں دنیا کا بھی حسن عطا فرما اور دین کا بھی گویا حسنِ زندگی کے حصول کے بارے میں دین و دنیا کو ہم پلّہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ رسول کریم نے اپنی ایک حدیث میں اسی میانہ روی اور اعتدال کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ’’خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا‘‘ یعنی کام میانہ روی اختیار کرنے سے بہترین طریقے پر انجام پاتے ہیں۔ اسی قسم کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اختصار کی خاطر نظر انداز کرتے ہیں۔ دوسری خصوصیت اللہ تعالیٰ نے اس امت کی یہ بیان کی کہ یہ بہترین امت ہے اور اس کا سب یہ بیان فرمایا کہ یہ دنیا میں نیکی کی علمبردار ہے اور لوگوں کو برائی سے روکتی ہے۔ ’’كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ‘‘ گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس امت کا فرض قرار پایا۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ بہترین امت ہونا غیر مشروط نہیں اگر یہ اپنا فریضہ ادا کرے گی تو بہترین امت قرار پائے گی اور اس کی افادیت سے سرفراز ہو گی لیکن اگر اپنا فریضۃ انجام نہیں دیتی