کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 44
علیہ وسلمکی شخصیت کس قدر عظیم اور انسانیّت کے کس قدر ارفع و اعلیٰ مرتبے پر فائز تھی۔ اس امر کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اب اس حقیقت پر نگاہ ڈالیے کہ انسانی زندگی دراصل عمل سے عبارت ہے۔ یہ عمل انفرادی زندگی کے دائرے میں ہو تو آدمی کی سیرت و کردار اور افکار و خیالات کی عکاسی کرتا ہے اور اجتماعی زندگی میں یہ معاملات، معاشرت، تمدن، سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ زندگی کے ان دو دائروں میں انسان کے اندر ایک ایسے معیار کی فطری طلب اور احتیاج رکھی گئی ہے جس کے مطابق وہ اپنے افکار و اعمال کو ڈھال کر ایک بہتر اور کامیاب زندگی کی طرف بڑھ سکے۔ چنانچہ اس کی یہ فطری احتیاج اس کے اندر انسانوں میں سے کسی ایسی ہستی کی تلاش و جستجو کو جنم دیتی ہے جو اپنی ہر ادا میں مثالی سیرت و اخلاق کا مجسمہ اور حسنِ عمل کی منہ بولتی تصویر ہو، جس کی ذات میں زندگی کی جملہ خوبیوں اور بھلائیوں کو متشکل دیکھا جا سکے۔ جس کے افکار و اعمال کی میزان کو ہاتھ میں لے کر، اور اس کے ان افکار و اعمال کے اجتماعی ظہور کے خدوخال کو مثال بنا کر شخصی، معاشرتی اور تمدنی زندگی کی تعمیر کی جا سکے۔ انسان کی اس فطری طلب و احتیاج کی تسکین کو مدِّ نظر رکھ کر جب ہم تاریخ انسانی کے اوراق پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو صرف ایک ہی شخصیت ایسی نظر آتی ہے جو انسان کی اس طلب کا صحیح ترین اور مکمل ترین جواب ہے اور جس کی ذات ہی دراصل انسانیت کا کامل ترین معیار ہے، خالص، بے لاگ اور بے مثل!
یہ شخصیت نبی آخر الزمان حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی ذاتِ گرامی ہے، جس کا تعارف خود خالقِ کائنات نے اسے صاحبِ خلقِ عظیم کہہ کر کرایا ہے۔
کیسی انوکھی شخصیت اور بے مثال ذاتِ گرامی ہے وہ کہ قرآن مجید اس کو لوگوں کے سامنے مثالی شخصیت و کردار کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، ایک صاحبِ ایمان جب اس سوال کا جواب چاہتا ہے کہ اس کامل و اکمل ہستی کا اخلاق و کردار کیا ہے تو جواب میں اس کے سامنے اسی قوم کو پیش کیا جاتا ہے کہ یہ عظیم کتاب ہی اُس صاحبِ خلقِ عظیم کا اخلاق ہے۔ گویا یہ بتایا گیا کہ اگر تمہیں قرآنِ عظیم کے معانی کا ادراک کرنا ہے تو نبی عربیصلی اللہ علیہ وسلمکے اوراقِ زیست کا مطالعہ کرو، اور اگر تم سیرت و اخلاقِ محمدیصلی اللہ علیہ وسلمکے جویا ہو تو قرآن کے صفحات و آیات کا مطالعہ کرو۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص قرآن کو صاحبِ قرآن کے بغیر سمجھنا چاہے تو یہ محض ایک خود فریبی اور فسادِ فکر و نظر ہے اور اگر کوئی شخص قرآن کے اسرار و معانی تک رسائی حاصل کیے بغیر صاحبِ قرآن کی سیرت و کردار کے محاسن کی جلوہ افرینیوں کا نظارہ کرنا چاہتا ہے تو یہ بھی محض ایک خام خیالی ہے۔ قرآن اور صاحبِ قرآن میں سے کسی ایک سے بے نیاز ہو کر ہدایتِ ربّانی