کتاب: محدث شمارہ 34 - صفحہ 42
تو اللہ نے اسے اسی عمل کے بدلے جنت میں داخل کر دیا۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ ’’میں اس سے زیادہ معاف کرنے کا سزاوار ہوں۔ اس لئے میرے بندے سے درگزر کرو۔‘‘ آپصلی اللہ علیہ وسلمکا ذاتی اسوہ سعید بن قیس کا بیان ہے کہ میں نے اور مخرمہ عبدی نے ہجر سے کچھ کپڑا خریدا اور مکہ میں فروخت کرنے لگے۔ رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلمہمارے پاس سے گزرے ہم سے کچھ پاجاموں کا سودا کیا۔ وہاں قریب ہی ایک شخص مزدوری پر کچھ تول رہا تھا۔ آپ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا زِنْ وارْجح تولو مگر دیکھو جھکتا تولنا۔ (راوی کا بیان ہے کہ اس سے پہلے ہم نے ایسا عمدہ کلام نہیں سنا تھا) حضرت جابر بیان کرتے ہیں، میرا کچھ قرض حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلمکے ذمے واجب الادا تھا۔ آپ نے مجھے قرض بھی ادا کیا اور کچھ مال مزید بھی۔ (بطور شکریہ و امتنان) مرحمت فرمایا۔ (ابو داؤد) عبد اللہ بن ابی ربیعہ سے مروی ہے حضورصلی اللہ علیہ وسلمنے مجھ سے چالیس درہم قرض لیے۔ جب آپصلی اللہ علیہ وسلمکے پاس مال آیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلمنے مجھے قرض ادا کر دیا اور دعا فرمائی اللہ تعالیٰ تیرے اہل و عیال اور مال و منال میں برکت دے قرض کا عوض شکریہ کے ساتھ ادائیگی ہے۔ (نسائی) ایک شخص نے رسالت مآبصلی اللہ علیہ وسلمسے اپنے قرض کا تقاضا کرتے ہوئے کچھ درشت کلامی کی۔ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بڑی ناگوار گزری۔ مگر آپ نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو۔ صاحبِ مال کو بولنے کا حق ہے۔ اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ اس نے آپ کو جو اونٹ دیا تھا ہمیں ویسا مل نہیں رہا البتہ اس سے عمدہ مل سکتا ہے۔ فرمایا وہی خرید کر دے دو تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو ادائیگی میں اچھا ہے۔ ایک دفعہ آپصلی اللہ علیہ وسلمکے پاس ایک غلام حاضر ہوا اور آپصلی اللہ علیہ وسلمکے دستِ مبارک پر ہجرت کی بیعت کی۔ (آپ کو اس کے غلام ہونے کا علم نہ تھا) بعد میں اس کا آقا آیا۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلمسے اپنے غلام کا مطالبہ کرنےلگا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے اسے خرید لینے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ بمشکل دو حبشی غلاموں کے بدلے اسے فروخت کرنے پر آمادہ ہوا۔ آخر آپصلی اللہ علیہ وسلمنے اسے دو غلاموں کے بدلے میں خرید لیا۔ اور آئندہ کے لئے جب بھی کسی سے بیعت لیتے تو اس سے پوچھ لیتے آیا آزاد ہے یا غلام۔ مدینہ میں ایک تجارتی قافلہ وارد ہوا۔ اور شہر سے باہر ٹھہرا۔ اتفاقاً حضرت اُدھر سے گزرے۔ آپ نے ایک اونٹ کا سودا کر لیا اور یہ کہہ کر اونٹ لے آئے کہ ابھی قیمت بھجوائے دیتا ہوں۔ بعد میں قافلے والوں کو تشویش ہوئی کہ بغیر کسی تعارف کے معاملہ کر بیٹھے۔ اس پر سردارِ قافلہ کی خاتون بولی۔ ’’مطمئن رہو میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا۔ جو چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن تھا۔ اس جیسا شخص کبھی تمہارے ساتھ بد معاملگی نہ کرے گا اگر بالفرض وہ رقم ادا نہ کرے تو مطمئن رہو میں اپنے پاس سے رقم ادا کر دوں گی۔‘‘ یہ واقعہ طارق بن عبد اللہ بن بیان کیا جو خود شریک قافلہ تھے۔ بعد میں حضورصلی اللہ علیہ وسلمنے طے شدہ اور قیمت سے زیادہ مقدار میں کھجوریں بھجوا دیں۔